novel-cousin-friend-5 0

کزن دوست، شمائل عبداللہ، گوجرانولہ
ساتویں قسط
کافی دن سے تم نے حال بھی نہیں پوچھا!
پاس آ کر بیٹھی بھی نہیں، کیا ہوا؟

Thank you for reading this post, don't forget to subscribe!

نعیم نے ایک کاغذ پر لکھ کر اس کا جہاز بنایا اور انعم کی جانب پھینک دیا۔

انعم نے وہ کاغذ کھولا، ہلکی سی مسکراہٹ لبوں پر آئی، پھر جواباً لکھا:
“جہاں لفظوں کی پکڑ ہو وہاں دوستی نہیں نبھتی، نعیم!”

یہ لکھ کر اس نے بھی کاغذ کا جہاز بنا کر واپس اڑا دیا۔
حالانکہ ان کے درمیان اتنا فاصلہ نہ تھا —
نعیم صحن میں چارپائی پر بیٹھا تھا،
اور انعم لکڑیوں پر روٹیاں پکا رہی تھی۔

بس، پابندیوں کے باعث دونوں ایسے بات کر رہے تھے —
جہازوں کے ذریعے، لفظوں کے ذریعے،
اور ان لفظوں میں چھپا وہ دکھ جو زبان نہیں کہہ سکتی تھی۔

“کیا بات ہے، اتنی جلدی میں کیوں بلایا تم نے ہمیں؟”
اکبر نے ہوٹل میں راحیلہ سے ملنے کے بعد پوچھا۔

“ہاں یار، بتاؤ نا، کیا جلدی تھی؟”
نیلم نے بھی فوراً سوال داغا۔

راحیلہ نے گہری سانس لی،
چہرے پر تھکن اور خوف کے ملے جلے آثار تھے۔

“آج جب میں آ رہی تھی نا، تو چھت سے خون ٹپکنے لگا…”
راحیلہ نے آہستہ سے کہا،
“اور جب تمہیں فون کیا تو کسی نے شیشے کا ٹیبل توڑ دیا۔
مجھے کچھ سمجھ نہیں آ رہی، یہ کیا ہو رہا ہے!”

یہ سنتے ہی نیلم اور اکبر کے چہرے کے رنگ اڑ گئے۔
راحیلہ نے پوری بات بتا کر اکبر کی طرف دیکھا، جیسے کسی حل کی آس ہو۔

اکبر نے ایک لمحہ سوچا، پھر بولا:
“اوہ، تو یہ بات ہے؟ تم فکر نہ کرو،
ہم آج شام کو کچھ حل ڈھونڈ کر بتاتے ہیں تمہیں۔”

نیلم نے بھی اثبات میں سر ہلایا۔
اور جب دونوں کے الفاظ ملے —
تو خوف کے بیچ ایک چھوٹی سی، بے ساختہ ہنسی چھوٹ گئی۔

وہ ہنسی جو دل کے بوجھ کو لمحہ بھر کے لیے ہلکا کر دیتی ہے،
مگر فضا میں پھر بھی کچھ ان دیکھا، کچھ انجانا خوف باقی رہتا ہے۔

novel Cousin Friend
— جاری ہے

کہانی، کزن دوست ، شمائل عبداللہ گوجرانولہ چھٹا قسط

50% LikesVS
50% Dislikes

کزن دوست، شمائل عبداللہ، گوجرانولہ

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں