کہانی، کزن دوست، شمائل عبداللہ، گوجرانولہ
قسط پانچواں
رات کو آپ اتنا ڈر کیوں گئے تھے؟ اگلی صبح راحیلہ نے پوچھا۔
راحیم خاموشی سے نہانے چلا گیا۔
“اچھا! سنیے، آپ نے کچھ سوچا؟”
“کس بارے میں؟” راحیم نہا کر آیا تو راحیلہ نے فٹ سے سوال داغا۔
“کیا سوچنا ہے؟ ان کی عمر ہوگئی ہے، اب کیا بحث کرنا ان سے!”
راحیم نے تیار ہوتے ہوئے کہا۔
راحیلہ کو یہ بات کچھ عجیب لگی، کیونکہ اب سے پہلے ایسا جواب راحیم نے کبھی نہیں دیا تھا۔
“لیکن کیا اب ہم یوں ہی لفظوں کی بدنامی ہونے دیں اور حقیقت نہ بتائیں؟ کیا ہم خاموش ہو جائیں؟ یاد رکھیے صاحب! لفظوں کا اثر ہمارے کردار پہ ہوتا ہے، اور ان کی بدنامی ہماری بدنامی ہے۔ ہم نے لفظوں سے بدنامی کا داغ نہ ہٹایا تو ہم کہیں کے نہیں رہیں گے! لوگ حوا کو ہوا سمجنے لگیں گے، فرق نہ ہوا تو کئی رشتے بیکار ہو جائیں گے!”
راحیلہ کی آواز کرخت تھی۔
“اوہو! تم انسان بھی نا! بہت بولتے ہو۔ جہاں لفظوں کی پکڑ ضروری ہوتی ہے وہاں کرتے نہیں، اور عام طور پر پکڑ کر کے دل خراب کرتے ہو!” راحیم بولا۔
“تم تو ایسے کہہ رہے ہو جیسے…”
غصے میں بولتی راحیلہ کچھ پل کو رکی، پھر غور کر کے بولی:
“ایک منٹ… کیا کہا تم نے؟ تم انسان؟”
اب غصہ خوف میں بدل چکا تھا۔
“بوجھو تو جانیں!”
یہ کہہ کر راحیم بھاگتا ہوا قہقہہ لگاتا باہر چلا گیا —
اور جاتے جاتے خالہ کی شکل اختیار کر گیا۔
راحیلہ یہ دیکھ کر دہشت سے بھر اٹھی، اور کرسی پر براجمان ہو گئی۔
جاری ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ novel-cousin-friend
گلگت بلتستان کے تعلیم یافتہ نوجوان اور بڑھتی ہوئی بے روزگاری ، پانچ سالہ مایوسی کی کہانی، انعام بیگ
کراچی میں ای چالان کا آغاز، صرف 6 گھنٹوں میں سوا کروڑ روپے سے زائد کے چالان
اسکردو برف پوش پہاڑوں کی وادی، سجیلہ بتول اسوہ گرلز کالج سکردو




