novel cousin friend 0

کہانی کزن دوست، شمائل عبداللہ، گوجرانولہ
قسط 26
ہسپتال کے باہر والے راہداری میں خاموشی کا راج تھا۔ نعیم ابھی ابھی واپس آیا تھا—زبیدہ سے ہونے والی اُس خوفناک گفتگو کا بوجھ اُس کے چہرے پر صاف جھلک رہا تھا۔ جیسے ہی اُس نے ایمن اور سلیم کو پریشان بیٹھے دیکھا تو ماحول کا بھاری پن تھوڑا توڑنے کے لیے ہلکا سا سوال اچھال دیا:

Thank you for reading this post, don't forget to subscribe!

“یار ویسے… دوستی کیا ہے تمہاری نظر میں؟”

ایمن نے دھیمی سانس بھری اور بولی:

“دیکھو… مجھے تو لگتا ہے دوستی وہ رشتہ ہے جو سب سے اوپر ہے۔
نہ تکلفات… نہ وضاحتیں… نہ غلط فہمیاں، نہ خوش فہمیاں۔
نہ شک… نہ وہم… بس اعتبار۔
ایک ایسا یقین جو بغیر بولے بھی سمجھ آ جائے۔”

سلیم نے ہلکے سے مسکرا کر سر ہلایا:

“بالکل! میں تو کہتا ہوں دوستی بہن بھائی جیسا رشتہ ہے…
مگر ان سے بھی زیادہ قریب۔
اسی لیے کہتے ہیں کہ دوست کو بہن یا بھائی کہہ کر مخاطب نہیں کرنا چاہیے۔
بھائی بہن تو خون میں ملتے ہیں…
دوست قسمت میں۔”

یہ بات ختم ہی ہوئی تھی کہ آئی سی یو سے پھر وہی خوفناک آوازیں اٹھیں!

ایمن کے چہرے پر پیلاہٹ آئی، مگر نعیم نے فوراً سر جھکا لیا۔
وہ جانتا تھا——وہ انعم نہیں تھی!
زبیدہ اسے بتا چکی تھی کہ یہ اُس کی بھیجی ہوئی بہروپ ہے…
اصل انعم تو اندر چیخنے کی طاقت بھی نہیں رکھتی تھی۔

نعیم کے دل میں خوف نے دانت گاڑ دیے مگر وہ خاموش رہا۔
ہسپتال سے کچھ دور، دوسری طرف اکبر اور نیلم سڑک پر چل رہے تھے۔

اکبر نے سوال اچھالا:

“ویسے نیلم… محبت کے بارے میں تمہارا کیا خیال ہے؟
سنا ہے محبت سائنس ہوتی ہے؟”

نیلم ہلکا سا ہنسی:

“نہیں… مجھے نہیں لگتا۔
سائنس کہتی ہے نیگٹو چارجز پوزیٹو کو اٹریکٹ کرتے ہیں۔
محبت میں تو ایسا کچھ بھی نہیں ہوتا۔
یہ کب، کس سے، کیوں ہو جائے—کسی کو کچھ نہیں پتا!”

اکبر نے فوراً طنزیہ انداز میں کہا:

“اچھا اچھا بس! راحیلہ بننے کی ضرورت نہیں، نیلم ہی رہو!”

نیلم نے خفگی سے اسے دیکھا تو اکبر نے کندھے اچکائے:

“یار… محبت پر لوگوں کی ہزار رائے ہیں۔
کسی کے لیے جذبہ…
کسی کے لیے فطرت…
کسی کے لیے قدرت۔
لیکن ایک بات طے ہے—
جو کام محبت نہیں کر پاتی… دوستی کر دیتی ہے!”

نیلم نے آہستہ کہا:

“ہاں… اسی لیے تو ہم دوست ہیں۔
اور ہاں—کزن بھی ایک دوستانہ رشتہ ہوتا ہے۔”

اکبر ہنسنے ہی لگا تھا کہ اچانک دونوں چونک گئے۔

سامنے سے ایک کراہنے کی آواز آئی۔
بہت بھاری… بہت نامانوس… جیسے کسی نے گلے میں پتھر باندھ کر پکارا ہو:

“…راحیم… راحیم…”

نیلم نے اکبر کا بازو پکڑ لیا۔

راحیلہ اپنے شوہر کو اسی بھیانک، بھاری آواز میں پکار رہی تھی!

اور ادھر، محلے کی دوسری بیٹھک میں
شمائلہ جعفری کے پسینے چھوٹ رہے تھے—
جیسے کوئی ان دُور کے واقعات کی دھڑکنیں بھی سن رہا ہو…
اور ان کا آپس میں جڑنا… ابھی باقی ہو۔

novel cousin friend

———————————-جاری ہے—————————————–
کزن دوست-
قسط 27
“یہ… یہ آواز؟” اکبر نے چونک کر کہا، جیسے کسی گہری بات کا احساس ہوا ہو۔
“کیا تم نے وہ سنا؟” اس نے فوراً نیلم سے پوچھا۔

“ک… ک… کیا سنا؟ یہاں کچھ بھی اصلی نہیں… ت… تم چلو میرے ساتھ!” نیلم گھبرا کر بولی، کیونکہ آواز اس نے بھی سن لی تھی۔ مگر اکبر کہاں رکنے والا تھا؟ وہ چلتا گیا… چلتا گیا… یہاں تک کہ اسی غار کے دہانے تک آن پہنچا — اور اگلے ہی لمحے چیخ اٹھا!

اکبر کی چیخ سن کر نیلم بھی غار کی طرف دوڑی۔ اندر پہنچتے ہی وہ بھی ویسے ہی چلّا اٹھی جیسے اکبر!

“ا… اچھا تم لوگ باتیں جاری رکھو، میں ابھی آتا ہوں!”
نعیم یہ کہہ کر دوبارہ ویرانے میں پہنچا۔ وہاں کھڑے ہو کر اس نے آسمان کی طرف دیکھا اور بھرائی ہوئی آواز میں بولا:

“اے میرے مسیحا! دیکھ… میں نے کبھی تیرے حکموں کو نہیں ٹالا۔ آج میں بےبس ہوں… میں تیری منت کرتا ہوں مجھے راستہ دکھا! میں کیا کروں کہ ان سب کا خاتمہ ہو؟”

وہ یہ الفاظ رو رو کر کہہ ہی رہا تھا کہ اس کی جیب میں رکھی صلیب اچانک چمک اٹھی۔ نعیم نے چونک کر صلیب نکالی تو وہ اس کے ہاتھ سے پھسل کر سامنے کی دیوار پر جا لگی — اور یوں جیسے اسے آگے کا راستہ دکھا رہی ہو۔

صلیب ابھی واپس آنے ہی والی تھی کہ نعیم نے جلدی سے پوچھا:

“اے صلیب… مجھے یہ بتا… انعم کیسی ہے؟”

صلیب نے فوراً زبیدہ کا منظر نعیم کو دکھایا۔
جنات اور چڑیلیں جب بھی انعم کے قریب جانے کی کوشش کرتے، بھسم ہو جاتے۔ کچھ تو لہولہان ہو کر پیچھے ہٹتے۔
زبیدہ نے ابھی تک خود انعم پر وار نہیں کیا تھا… مگر اس کی آنکھوں میں ایک خوفناک چمک تھی۔

یہ سب دکھانے کے بعد صلیب واپس نعیم کی جیب میں لوٹ آئی۔
(اور لال صلیب شیشے کی تھی۔)
ادھر ہسپتال میں سلیم اور ایمن اب ادھر ادھر کی باتوں میں مگن تھے۔ انہیں یقین تھا کہ نعیم سب کچھ ٹھیک کر دے گا۔

گھر میں راحیلہ کبھی روتی تھی… کبھی ہنستی… جیسے کوئی اندرونی جنگ لڑ رہی ہو۔
اور شمائلہ جعفری بیٹھک میں بیٹھی زبور 23 اور 91 زبانی پڑھ رہی تھی۔ اس کی آواز میں ایک عجیب سا یقین تھا… جیسے وہ ہر اندھیرے کے مقابل کھڑی ہو۔
————————————–جاری ہے—————————————

کہانی کزن دوست
قسط 28 —
شمائلہ… شمائلہ…!
راحیلہ ابھی ابھی نیند سے جاگی تھی اور آوازیں لگانے لگی۔

“آیا امی!”

بدلے میں بہروپیہ نعیم نے اندر سے امی کی سی آواز نکالی۔

“جی امی…”

کچھ ہی دیر بعد بہروپیہ نعیم واقعی کمرے میں چلا آیا۔

“اچھا ہوا بیٹا تم آگئے، تم سے ہی بات کرنی تھی۔ لیکن چونکہ تم سو رہے تھے تو میں نے جگانا مناسب نہیں سمجھا۔”

“جی کہیے امی، کیا بات ہے؟” نعیم نے قدرے نرم لہجے میں کہا۔

راحیلہ نے ذرا جھجکتے ہوئے پوچھا:
“تم مان جاؤ گے نا…؟”

“امی! آپ کہیں تو صحیح…” نعیم نے راحیلہ کا ہاتھ پکڑتے ہوئے کہا۔

“انعم کیسی لگتی ہے تمہیں؟”

راحیلہ نے حیرت سے کہا:
“لو یہ کیسا سوال ہے؟ دوست بھی کبھی برے لگتے ہیں کیا!”

“ہمم…” نعیم پلنگ پر بیٹھتے ہوئے بولا۔
“شادی کرو گے اس سے…؟”

یہ سنتے ہی نعیم نے شرمانے کی اداکاری کی اور جلدی سے کمرے سے باہر چلا گیا۔

راحیلہ مسکراتی ہوئی خودکلامی کرنے لگی:
“ہمم… لگتا ہے لڑکا چاہنے لگا ہے لڑکی کو…”

آٹھ بج چکے تھے…
بدروح پھر سے راحیلہ میں سما گئی۔

“اے میرے مسیحا… مدد کر… میری مدد کر میرے مسیحا…”

نیلم نے دیکھا کہ لاشیں اس کی طرف بڑھتی آ رہی ہیں۔ وہ گھبرا کر دعائیں پڑھنے لگی۔ اسی لمحے ایک نقاب پوش اچانک سامنے آیا۔

“وہاں دیکھو… وہ بل ہے! ادھر جا کر چھپ جاؤ۔ ان کو میں دیکھتا ہوں!”

“ک… کون ہو تم؟” نیلم کانپ گئی۔

“سب بتاتا ہوں… پہلے وہ کرو جو میں کہہ رہا ہوں۔”

نیلم فوراً بل میں جا چھپی۔ اندر چوہے ہی چوہے تھے، رہنا مشکل تھا، مگر وہ جیسے تیسے چپ چاپ بیٹھ گئی۔
“میرے مالک… کوئی راہ دکھا…”

برف پر چلتے چلتے جب پاؤں جلنے لگے تو نعیم رکنے لگا، مگر صلیب نے خاموشی سے آگے بڑھنے کا اشارہ کیا۔ وہ چلتا گیا… چلتا گیا…
پھر اچانک اس کے سامنے کاغذی دنیا پھیل گئی—
درخت، پھول، کشتیاں، جہاز… سب کاغذ کے!
-ادھر اسپتال میں…

رپورٹس میں کچھ نہ آنے اور انعم کے مسلسل کراہنے پر ڈاکٹرز نے فیصلہ سنایا:

“مریضہ کو ابدی موت کا ٹیکہ لگا دیا جائے…”

ڈاکٹر افراہیم آئی سی یو سے باہر آیا اور سلیم و ایمن کو ساری صورتحال بتائی۔

“جو کوئی پیشنٹ سے ملنا چاہے… ابھی مل سکتا ہے…”

“ٹھیک ہے ڈاکٹر صاحب…”
سلیم اور ایمن کی آواز لرز گئی۔ وہ گھبرا کر بمشکل حامی بھر پائے۔

دونوں کی نظریں دروازے پر تھیں…
اور دل میں ایک ہی دعا—
“نعیم لوٹ آئے… نعیم لوٹ آئے…”

——————-جاری ہے———————

کہانی کزن دوست – شمائل عبداللہ گوجرانولہ
قسط 29
بل میں چھپنے کے بعد جیسے ہی اس نے پیچھے دیکھا تو چوہوں کا ایک غول کھڑا تھا۔ وہ گھبرا کر دیوار کے ساتھ لگ گئی۔
“باندھ دو اسے… بچنے نہ پائے!”
یہ چوہوں کے سردار کی بھاری آواز تھی۔

“جی سرکار!”
سب چوہے ادب سے جھک گئے۔

ایک چوہا ہوا کی رفتار سے اچھلا، پلک جھپکتے میں اس کے ہاتھ باندھے اور غائب ہوگیا۔

“یہ سبھی چوہے بھی ہوائی ہی ہیں… بھوتیہ چوہے کہنا غلط نہ ہوگا…”
نیلم نے کانپتی آواز میں کہا، مگر اگلے لمحے تیز رفتار چوہے نے اس کا منہ بھی باندھ دیا۔

“یہ پانچ فٹ دس اِنچ کی لڑکی ہمارے بل میں گھسی کیسے؟”
ایک چوہے نے حیرت سے پوچھا۔

“تم آم کھاؤ، گھٹلیاں نہ گنو!”
دوسرے چوہے نے ڈانٹ کر کہا۔

“بس کچھ ہی دیر میں ہمارے مالک، بادشاہ گمسام تشریف لاتے ہوں گے… جن میں شیطانیت کوٹ کوٹ کر بھری ہے۔ وہی فیصلہ کریں گے کہ اس لڑکی کا کیا کرنا ہے۔ تب تک سب خاموش ہو کر سو جاؤ!”

یہ کہہ کر چوہوں کے سردار نے قہقہہ لگایا اور نعرہ بلند کیا:
“جے شیطان!”
سب چوہے خوشی سے جھوم اٹھے۔

نیلم کو بل کے اندر دھکیلنے والا وہی نقاب پوش تھا۔ اسی کے منتر سے یہ سب ممکن ہوا۔
یہ نقاب پوش اکبر تھا…
جو ان ہی میں سے ایک بن چکا تھا، کیونکہ اسے ثانِش نامی چڑیل نے کاٹ لیا تھا۔

نعیم نے آگے بڑھتے ہوئے کاغذی دنیا میں قدم رکھا۔ یہاں جہاز، کشتی، پھول… سب کچھ کاغذ کا تھا! یوں لگ رہا تھا جیسے وہ کسی فیری ٹیل میں آگیا ہو۔
اس کے گلے کی صلیب بھی بس یہی کہہ رہی تھی:
“چلتے رہو… رُکنا مت!”

“کیسے ہو سلیم؟”
ہسپتال کی انعم نے اسے اپنے پاس بیٹھا دیکھا تو پوچھا۔

“اچھا ہوں…” سلیم نے آہستہ سے جواب دیا۔
“تم کیسی ہو ایمن؟”
انعم نے اب ایمن کو مخاطب کیا، مگر وہ چپ رہی۔

دو تین مرتبہ پوچھنے پر وہ یک دم بولی:
“ہاں ہاں… میں بھی ٹھیک ہوں!”

کافی دیر تک وہ تینوں باتیں کرتے رہے۔ باہر نکلے تو ڈاکٹرز اپنے منصوبے پر عمل کرنے اندر بڑھ گئے۔

اگلے دن سہ پہر تین بجے راحیلہ پریشانی کے عالم میں بہروپیہ نعیم کے کمرے گئی۔

“نعیم دیکھو ناں… تمہارے بابا کا فون نہیں لگ رہا!”

مگر کمرے میں نعیم تھا ہی نہیں۔

————————جاری ہے —————————-

50% LikesVS
50% Dislikes

کہانی کزن دوست، شمائل عبداللہ، گوجرانولہ

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں