کہانی ، کزن دوست ، شمائل عبداللہ، گوجرانولہ
صفحہ نمبر 24
وہ دوبارہ ہسپتال میں پہنچا تو سارا نظام ہی الٹا پایا۔
انعم ہسپتال کے بستر پر لیٹی چیخیں مار رہی تھی۔
ایمن باہر بیٹھ کر دعائے ربانی پڑھ رہی تھی،
اور سلیم کونے میں بیٹھا اپنی ہی سوچوں میں گم —
یا شاید سخت پریشان تھا۔
نعیم یہ سب دیکھ کر حیران رہ گیا۔
“یہ سب کیا ہے؟”
وہ فوراً ہسپتال سے نکلا اور سیدھا ویرانے میں جا پہنچا۔
“کیا کیا ہے تم نے زبیدہ انعم کے ساتھ؟
وہ ہسپتال میں کون ہے؟”
زبیدہ نے قہقہہ لگایا۔
“سب بتاؤں گی… جلدی کیائ ہے؟”
اس کے لہجے میں زہر گھلا ہوا تھا۔
اسی وقت دوسری جانب—
“ہمیں فوراً سے پیشتر اصلی پادری کو ڈھونڈنا ہوگا،
وہی بتائیں گے… نعیم کہاں ہے!”
نیلم نے تیز قدموں سے چلتے ہوئے کہا۔
اکبر نے الجھتے ہوئے جواب دیا:
“ہاں… پر معلوم بھی تو ہو کہ وہ ہیں کہاں؟”
نیلم نے اس کے کاندھے پر ہاتھ رکھا:
“جب راستوں پر چلنا شروع کرو تو منزلیں خود مل جاتی ہیں۔”
اکبر نے بیزاری سے ہممم کہا اور آگے بڑھ گیا۔
ادھر راحیلہ کا سانس سنبھلا تو وہ شمائلہ جعفری سے پھر بول اٹھی:
“ڈر تو اس بات کا ہے کہ انسان خدا کو منا لیتا ہے…
پر خدا کے بندے نہیں مانتے!
میں نعیم کو شادی کے لیے کیسے راضی کروں گی…؟”
اس کے لہجے میں بے بسی واضح تھی۔
novel cousin friend
کہانی، کزن دوست، شمائل عبداللہ، گوجرانولہ، قسط 23




