Novel Cousin Friend 0

ناول، کزن دوست شمائل عبداللہ، گوجرانولہ
قسط 20
“دیکھا؟ میں نے تمہیں کہا تھا ناں… خدا نے کوئی چیز بیکار نہیں بنائی۔ جنسی تعلق ایک بہت خوبصورت شے ہے۔ یہ ہماری حفاظت کے لیے ہے۔ اگر آدم اور حوّا میں جنسی تعلق کی پیدائش نہ ہوتی تو آج نہ یہ دنیا ہوتی، نہ احساسات، نہ جذبات۔ پھر تو وجودِ کائنات ہی کچھ اور ہوتا۔”

Thank you for reading this post, don't forget to subscribe!

پادری کے جاتے ہی نیلم نے کہا۔

راحیلہ نے فوراً جواب دیا:
“تمہاری باتیں بجا ہیں، لیکن وہ دونوں کزن ہیں… اور دوست بھی۔ شادی کیسے ہو سکتی ہے؟ میں ابھی تک الجھن میں ہوں!”

اکبر نے مسکرا کر کہا:
“تو کیا دوستی میں شادی نہیں ہوتی؟ کیا تم نے الف لیلہ کی کہانیاں نہیں پڑھیں؟ وہ جن، جو انسان لڑکی کا دوست بنتا ہے، بعدازاں اسی سے شادی بھی نہیں کرنا چاہتا؟ اور لڑکی–لڑکے کی دوستی میں پختگی کہاں ہوتی ہے؟ اکثر محبت میں بدل جاتی ہے۔”

“محبت! مت بھولو کہ ہم بھی دوست ہیں۔”
اکبر مزید بولا، “شادی دوستی میں نہیں، محبت میں ہوتی ہے… اور محبت کچھ نہیں دیکھتی۔ محبت کبھی کبھی دوستی کا سہارا لیتی ہے۔ جیسے دشمن کو ہرانے کیلئے دوست بنانا پڑتا ہے۔ ایسے ہی کئی بار دوستی بعد میں ہوتی ہے، اور وہ دوستی منفی ثابت نہیں ہوتی… بلکہ اکثر فائدہ دیتی ہے۔ ہمیشہ نہیں، مگر اکثر۔”

راحیلہ کی فلسفیانہ باتیں سن کر اکبر حیران رہ گیا۔
“یہ کیا بکواس فلاسفی ہے؟ اگر محبت کچھ نہیں دیکھتی… تو پھر ماں سے کیوں نہیں ہوتی؟”

نیلم نے فوراً کہا:
“ہو جاتی ہے! کیا تم نے نہیں سنا، کچھ لوگ کہتے ہیں کہ میری پہلی محبت میری ماں تھی؟ پھر انہیں زندگی میں کبھی محبت ہی نہیں ہوتی۔ سوچا کبھی کیوں؟ کیونکہ انہیں محبت ہوئی تھی، مگر انہوں نے رشتے کا پاس رکھا۔ اپنی ہوس کو درمیان نہیں آنے دیا۔

باہوں میں رہنے کی خواہش… ہوس ہے۔ تم نے دیکھا ہوگا! جن کی محبت کی شادی نہیں ہوتی، بچے ان کے بھی ہوتے ہیں۔ کبھی سوچا کیوں؟ مرد میں ہوس ہوتی ہے اور عورت میں شہوت۔ جب ان کی شادی کر دی جاتی ہے تو عرف میں انہیں ایک جائز نامہ مل جاتا ہے۔ پھر اس سب کو غلط نہیں کہا جا سکتا، مگر محبت بھی نہیں کہا جا سکتا… یہ سمجھوتہ ہوتا ہے۔ کچھ لوگ یہ سمجھوتہ بھی نہیں کر پاتے!”

راحیلہ نے مزید گہری بات کی:
“محبت ہماری روح میں شامل، ہر رشتے میں موجود ہے۔ یہ کہیں بھی شدت اختیار کر سکتی ہے۔ لیکن یہ ہم پر ہے کہ ہم اس محبت کو استعمال کیسے کرتے ہیں۔ محبت بری نہیں، اس کی شدت بھی نہیں۔ برا یہ ہے کہ ہم اسے بیان کیسے کرتے ہیں—آیا ہم اسے پاک رکھتے ہیں یا اس میں ہوس داخل ہونے دیتے ہیں۔ محبت بری ہو ہی نہیں سکتی… کیونکہ خدا محبت ہے।”

تینوں پادری کے جانے کے بعد ہال میں بیٹھ کر کھانا کھا رہے تھے۔ کھانا ختم ہوا، تھوڑی مزید گفتگو کے بعد سب اپنے گھروں کو روانہ ہوگئے۔

راحیلہ برتن صاف کرنے کے بعد اُس کمرے میں گئی، جہاں پادری دعا کے بعد چند اہم باتیں سمجھا کر گیا تھا۔ بس کمرے میں داخل ہی ہوئی تھی کہ اسے اچانک چکر آیا… اور وہ زمین پر گر گئی۔

ہسپتال کا منظر

“ہائے! کیسی ہے اب انعم؟”
سلیم نے ہسپتال پہنچتے ہی ایمن سے پوچھا۔ یہ وہی سلیم تھا جو کالج کے زمانے میں انعم کو چاہتا تھا۔

“بہتر ہے پہلے سے۔” ایمن نے مختصر جواب دیا۔

سلیم نے اس کی حالت دیکھ کر پوچھا:
“تم ٹھیک تو ہو؟ کیا ہوا تمہیں؟”

“ہ… ہاں میں ٹھیک ہوں۔ تم بتاؤ، یہاں کی خبر تمہیں کس نے دی؟”

“بس یوں ہی… دوستوں کی یاد آئی تو اسلم سے ملنے چلا گیا۔ اسی نے بتایا۔ مجھے لگا تم خوش ہوگی مجھے دیکھ کر، مگر… تم تو بیٹھے ہی رہیں۔ اٹھ کر ملی بھی نہیں!”
سلیم کے لہجے میں اداسی تھی۔

ایمن نے تھوڑی دیر خاموش رہ کر کہا:
“سوری یار… زندگی میں بہت مسئلے ہیں۔ کیا بتاؤں؟ تم بتاؤ کیسے ہو؟”

وہ سلیم کے گلے لگ گئی۔
“ہاں، شکر ہے مسیحا کا…” سلیم نے کہا۔

باتوں ہی باتوں میں ایمن نے اسے سب کچھ بتا دیا۔
اور جب یہ بات نعیم تک پہنچی… وہ گلی کی نکڑ میں جا کر پھوٹ پھوٹ کر رو دیا۔

—جاری ہے
Novel Cousin Friend

گلگت شہر میں ٹریفک جام کے سنگین مسئلے کے حل کیلئے ایڈیشنل چیف سیکریٹری کی زیر صدارت اہم اجلاس

ڈیرہ اسمٰعیل خان اور شمالی وزیرستان میں فورسز کے آپریشنز میں 15 خوارج ہلاک

علیمہ خان کے نام موجودجائیداد کی تفصیل عدالت میں پیش، 11ویں مرتبہ ناقابل ضمانت وارنٹ جاری

50% LikesVS
50% Dislikes

ناول، کزن دوست شمائل عبداللہ، گوجرانولہ

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں