کہانی، کزن دوست، شمائل عبداللہ
قسط 16
“مجھے چھوڑ دو پلیز، میری تم سے کیا دشمنی ہے؟”
راحیم زنجیروں میں بندھا فریاد کرنے لگا۔
“چھوڑ دوں گی… پہلے تمہارا خون تو چکھ لوں!”
زبیدہ کی سہیلی بدروح رابیل نے کہا — وہی رابیل جس نے حالات سے تنگ آ کر خودکشی کرلی تھی۔
رابیل نے چھری سے ایک کٹ اس کی گردن پر لگایا۔ جب خون بہنے لگا تو وہ لپک کر بولی:
“ہوں… تم تو کافی مزیدار ہو!”
پھر وہ سارا چیر کر پورا خون پی گئی اور قہقہہ لگاتے ہوئے بولی:
“آج تو ناشتہ کرکے مزہ آگیا!”
یہ کہہ کر وہ چڑیلوں کے ساتھ ناچنے اور گانے میں مگن ہوگئی۔
دوسری طرف:
“اور بتاؤ، کیا مصروفیات ہیں آج کل؟”
آئسکریم کھانے کے بعد ہوٹل میں کھانا کھانے بیٹھے نعیم نے پوچھا۔
“کچھ نہیں یار، ہونا کیا ہے؟ بس ویلے…!” مریم نے بےدلی سے جواب دیا۔
“کہنے کو ایم فل کیا ہے، لیکن حالات فقیروں سے بھی بدتر۔ ہم سے زیادہ تو یہ پھیری والے ہی اچھے ہیں! قدر بیشک کم ہے ان کی، لیکن کم از کم یہ کما تو رہے ہیں نا؟”
نعیم نے گہری سانس لیتے ہوئے کہا:
“ارے پریشان کیوں ہو؟ تمہارے پاس فن اداکاری تو ہے، تم اداکاری کرو!”
مریم نے تلخی سے ہنستے ہوئے کہا:
“میں تو کر لوں… لیکن یہ معاشرہ کیا جینے دے گا مجھے؟ میرے گھر والوں سے واقف ہو تم۔ نہ باپ ہے نہ ماں… لاوارث ہوں بالکل۔ بھلا ہو ماموں ممانی کا جنہوں نے پالا، ورنہ شاید…”
یہ کہتے کہتے اس کی آنکھیں نم ہوگئیں۔
نعیم نے نرمی سے کہا:
“یار، مجھ پر بھروسہ ہے نا؟ تم وہ کرو جو تمہیں کرنا ہے۔ تم معاشرہ ہو، لوگ نہیں۔ یاد رکھو— ماحول اچھا یا برا نہیں ہوتا، ماحول اچھا یا برا ہم ہی بناتے ہیں۔ میں تمہارے ساتھ ہوں، ہمیشہ۔ فکر مت کرو۔”
مریم نے ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ اس کا ہاتھ تھاما۔
نعیم بھی مسکرا دیا۔
—جاری ہے
سکردو بلتستان کا دل , حجاب فاطمہ اسوہ گرلز کالج سکردو
غلام حسین بلغاری ، طہٰ علی تابشٓ بلتستانی




