کزن دوست شمائل عبداللہ، گوجرانوالہ
قسط 14
“یہ اچھی بات نہیں ہے میرے خدا!”
نعیم نے گرجے کے اندر شمعوں کی روشنی میں دھیمی آواز میں کہا،
“دیکھ، میں نے کسی کو نہیں بتایا کہ تُو نے مجھے آسمانی طاقتیں دے رکھی ہیں۔ خالہ کو بھی پتہ چل چکا ہے کہ انعم اٹھارہ سال کی ہوگئی ہے۔ اب وہ اسے کچا چبا جائیں گی، تاکہ ان کا لطف مکمل ہو اور ان کے ساتھی انسانی جنس سے کھیل سکیں۔”
نعیم کے لہجے میں کپکپاہٹ تھی۔
“اب تُو نے اسے ہسپتال پہنچا دیا ہے، آج میں بہت بےبس ہوں خدایا… اس کی حفاظت کرنا!”
یہ کہہ کر نعیم نے لمبی سانس لی، صلیب کی طرف آخری نظر ڈالی اور گرجے کے دروازے سے باہر نکل گیا۔
فون کی گھنٹی بجی —
“کہاں ہو تم؟” ایمن کی آواز کانپ رہی تھی۔
“چرچ آیا ہوا تھا!” نعیم نے سنجیدگی سے جواب دیا۔
“یہاں پہنچو جلدی، انعم کی حالت بہت نازک ہے!”
نعیم کے ہاتھ لرز گئے۔ فون بند کرتے ہی اس کی آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے۔
ہسپتال کے ایمرجنسی روم میں ڈاکٹر کی آواز گونجی:
“یہاں کسی کا بی نگیٹو بلڈ گروپ ہے تو بتائیے، ہم اب مزید انتظار نہیں کر سکتے!”
ایمن نے نفی میں سر ہلایا ہی تھا کہ پیچھے سے ایک پکار ابھری:
“میرا ہے ڈاکٹر صاحب!”
سب کی نگاہیں مڑ گئیں۔
“آپ کون ہیں؟” ڈاکٹر نے سوال کیا۔
“م… مَیں کزن ہوں اس کا!” نعیم نے لرزتی آواز میں کہا۔
“آئیے!” ڈاکٹر نے فوراً کہا، اور چند ٹیسٹوں کے بعد نعیم کا خون لے لیا گیا۔
اسی وقت خالہ قہقہے لگاتی پورے گھر میں گھوم رہی تھیں۔
ان کی آنکھوں میں وحشت تھی —
اور راحیم کا ابھی تک کچھ اتہ پتہ نہیں تھا۔
—جاری ہے
novel cousin friend
سندھ میں ڈینگی کی صورتحال تشویشناک، 24 گھنٹے میں مزید 4 اموات، 1192 کیسز رپورٹ




