کہانی ، کزن دوست ، شمائل عبداللہ، گوجرانوالہ
تیسرا قسط
راحیم اور راحیلہ خالہ کو دیکھ کر گھبرا سے گئے۔
جب آواز لگائی، “زبیدہ آپا! کیا آپ ہیں؟”
تو ایک زور دار قہقہہ لگاتے ہوئے خالہ غائب ہوگئیں۔
راحیم نے بہادری کا مظاہرہ کرتے ہوئے قدم آگے بڑھایا،
دیکھا تو وہاں کوئی نہیں تھا۔
اس کی حیرت کی انتہا نہ رہی۔
وہ جلدی سے زبیدہ آپا کے کمرے میں گیا،
دیکھا تو وہ آرام سے سو رہی تھیں۔
پھر وہ سٹڈی روم میں گیا — وہاں انعم پڑھ رہی تھی۔
اچھے سے دیکھنے کے بعد بولا،
“شاید یہ میرا وہم ہوگا…”
یہ کہہ کر وہ واپس اپنے کمرے کو چلا آیا۔
“کیا ہوا بیٹا؟ سوئے نہیں ابھی تک؟”
زبیدہ آپا سامنے کھڑی تھیں۔
راحیم کے قدموں تلے زمین نکل گئی۔
“نہیں آپا، وہ بس…”
راحیم نے اتنا ہی کہا تھا کہ خالہ کی طرف دیکھ کر
اچانک اسے کچھ یاد آیا —
اور مارے خوف کے دوڑ لگا دی،
اپنے کمرے میں جا کر لحاف اوڑھ لیا۔
“کیا ہوا جانی، اتنے گھبرائے ہوئے کیوں ہو؟”
راحیلہ نے پوچھا۔
“ہ… ہ… ہم صبح بات کریں گے…”
یہ کہہ کر راحیم نے خود کو اور زیادہ لپیٹ لیا۔
غسل خانے اور باورچی خانے سے
خالہ کے قہقہے گونجنے لگے۔
راحیلہ کچھ سمجھ نہ سکی،
سو وہ راحیم کے بغل میں آ کر سو گئی۔
لیکن وہ قہقہے —
اب بھی صرف راحیم کو سنائی دے رہے تھے…
جس کے باعث وہ مزید لحاف میں سمٹ گیا۔
— جاری ہے
novel Cousin Friend




