column in urdu, International politics and the deprivation of Gilgit-Baltistan 0

بین الاقوامی سیاست اور گلگت بلتستان کی محرومی ، زوہیر علی شگری
پاکستان کے شمال میں واقع ایک خطہ گلگت بلتستان جو کہ اپنی جغرافیائی،دفاعی اور سیّاحی اہمیت کی وجہ سے نہ صرف پاکستان بلکہ پوری دنیا میں اہمیت کے حامل ہے۔ بلند ترین پہاڑوں کے اس خطے میں موجودگی کی وجہ سے اسے (THE ROOF OF THE WORLD) دنیا کا چھت بھی کہا جاتا ہے۔ سرحدی لحاظ سے یہ خطہ پاکستان،چین، بھارت اور افغانستان کے درمیان ایک اسٹریجک (Strategic)مقام رکھتا ہے۔اس کے سر حد چین کے سنکیانگ (sankianik) بھارت کے لداخ (LADAKH) اور افغانستان کے واخان بارڈر (Wakhan Corridor)سے ملتی ہے۔ یہاں قدرتی معدنیات کے بڑے ذخائر موجود ہیں۔ دریائے سندھ کی ابتدا بھی اسی علاقے سے ہوتی ہے جو پاکستان کے زراعت اور توانائی کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔ بین الاقوامی میڈیا کی جانب سے گلگت بلتستان کو 2025 کی دنیا کے بہترین صحت مقامات میں شامل کیا گیا۔
گلگت بلتستان کے لوگوں نے ہمیشہ پاکستان کے ساتھ وفاداری کی ہے چاہے وہ دفاع میں، ترقی میں یا قربانی میں، یہاں کے لوگوں نے ہمیشہ وابستگی ثابت کی ہیں، تاہم ان ساری قربانیوں کے باوجود ائینی حقوق سے محروم رکھنا یہاں کے لوگوں کو احساس محرومیت اور اس سوال کو جنم دیتی ہے کہ اخر وہ کب پاکستان کا حصہ بنیں گے؟
گلگت بلتستان کو مکمل ائینی حقوق نہ ملنے کی ایک بڑی وجہ مسئلہ کشمیر ہے۔ اقوام متحدہ (UN)کے قراردادوں کے مطابق جموں و کشمیر (جس میں گلگت بلتستان بھی شامل ہے) ایک متنازعہ علاقہ ہے۔ اگر پاکستان گلگت بلتستان کو ایک مکمل صوبہ بناتا ہے تو بھارت یہ پروپگنڈا کرنے میں کامیاب ہوگا کہ پاکستان کشمیر پر اپنے موقف سے پیچھے ہٹ گیا ہے، اس کے ساتھ ساتھ بھارت کا دباؤ بھی ایک بڑی رکاوٹ بنی ہوئی ہے کیونکہ بھارت لداخ اور سیاچن کے تناظر(context) میں اس خطے کو بھارت کا حصہ قرار دیتا ہے۔ اس کے علاوہ چین پاکستان اکنامک کوریڈور (CPEC) بھی قراقرم ہائی وے (Karakorum highway)سے گزرتا ہے، ان سب وجوہات کی بنیاد پر پاکستان اس خطے پر فیصلہ کرنے میں بہت محتاط رہتا ہے
تا ہم ان سارے مسائل کا نتیجہ یہاں کے معصوم عوام بھگت رہے ہیں، یہاں کے لوگ پاکستانی شناخت رکھتے ہیں، فوج میں خدمات انجام دیتے ہیں، لیکن پاکستان کے آئین میں شامل نہ ہونے کی وجہ سے احساس محرومی کا شکار ہے، اس کے علاوہ یہاں کے لوگوں کو مکمل جمہوری حقوق بھی میسر نہیں، یہ اپنے نمائندے قومی سے اسمبلی (NATIONAL ASSEMBLY)یا سینٹ (SENATE)میں نہیں بھیجھ سکتے جو ان کی جمہوری حق پر بڑا سوال ہے۔ یہاں کے لوگوں کو بنیادی حقوق بھی مکمل حاصل نہیں ہے۔ اگرچہ سی پیک(CPEC) اور ہائیڈرو پاور جیسے پروجیکٹس لائے گئے ہیں، لیکن یہاں کے عوام کو ان سے کچھ خاص فائدہ نہیں ہو رہیں ہیں۔ تعلیم، صحت اور روزگار کی مکمل سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے یہاں کے لوگوں کو بہت سے مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہیں۔
تا مستقبل میں امکان ہے کہ گلگت بلتستان کو عبوری صوبہ بنایا جائے گا، جس میں قومی اسمبلی اور سیٹ میں سیٹیں دی جائے گی جس سے اختیارات اور ترقیاتی منصوبوں میں اضافہ ہوگا لیکن اس علاقے کو مکمل صوبہ بننے میں ابھی وقت لگے گا کیونکہ اس کا تعلق کشمیر کی عالمی حیثیت اور پاکستان کی خارجہ پالیسی (FOREIGN POLICY)سے جڑا ہوا ہیں۔
نتیجتًا، ان تمام مسائل کا بوجھ یہاں کی عوام، قربانیاں اور وطن سے وفاداری کے باوجود پچھلے اٹھتترواں (78) سالوں سے محرومی حقوق کی صورت میں اٹھا رہیں ہیں۔ یہ لوگ اس آس میں بیٹھے ہوئے ہیں کہ کب ان کو ان کے جائز حقوق مکمل حاصل ہوں گے؟ ۔اب وقت کا تقاضہ ہے کہ گلگت بلتستان کو فوری طور پر عبوری صوبہ بنایا جائے اور قومی اسمبلی اور سینٹ میں نمائندگی دی جائے۔
International politics and the deprivation of Gilgit-Baltistan

Thank you for reading this post, don't forget to subscribe!
100% LikesVS
0% Dislikes

بین الاقوامی سیاست اور گلگت بلتستان کی محرومی ، زوہیر علی شگری

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں