عیدِ غدیر کی اہمیت، یاسر دانیال صابری
اس کو دنیا کی سب سے بڑی عید یعنی “عیدُ اللہِ الکبریٰ” کے طور پر مناتے ہیں۔ یہ دن محض ایک روایتی موقع یا تاریخی یادگار نہیں بلکہ عقیدہ، نظریہ، شعور، سماجی انقلاب، اور الٰہی نظمِ قیادت کی تکمیل کا دن ہے۔ یہی وہ دن ہے جب رسولِ اکرم ﷺ نے اللہ کے حکم سے حضرت علیؑ ابنِ ابی طالب کا ہاتھ بلند کر کے فرمایا: “من کنت مولاہ، فہٰذا علی مولاہ”۔ یعنی “جس کا میں مولا ہوں، یہ علی اس کا مولا ہے”۔ اس اعلان کے بعد سورہ مائدہ کی وہ مشہور آیت نازل ہوئی: “اليوم أَكملتُ لكم دينكم وأتممتُ عليكم نعمتي ورضيتُ لكم الإسلام دينًا”، جو اس بات کی تصدیق تھی کہ دین اسلام اپنی کامل صورت میں آج ہی مکمل ہوا۔ گویا غدیر نہ صرف اعلانِ ولایت کا دن ہے بلکہ اعلانِ اکمالِ دین کا دن بھی ہے۔ہم اس دن کو رسولِ اکرم ﷺ کی زندگی کا سب سے اہم اور فیصلہ کن مرحلہ سمجھتے ہیں۔ کیونکہ یہ وہ لمحہ ہے جب امتِ مسلمہ کو مستقبل کے لیے ایک ایسے امام و رہنما کے حوالے کیا گیا جس کی زندگی، سیرت، علم، عدل اور تقویٰ ہر لحاظ سے مثالی تھی۔ حضرت علیؑ کی ولایت کا اعلان اس بات کی علامت ہے کہ قیادت کا حق اُسے ہے جو نہ صرف رسول کا قریبی ہو، بلکہ خُدا کا چنا ہوا ہو، جو میدانِ جنگ کا ہیرو ہو، مگر راتوں کو یتیموں کے در پر کھانا چھوڑ جائے، جو عدالت میں اپنے خلاف فیصلہ بھی قبول کرے، جو بیت المال میں چراغ بجھا دے کہ نجی بات سرکاری چراغ کی روشنی میں نہ ہو۔
امام جعفر صادقؑ سے روایت ہے کہ: “عیدِ غدیر ہر نبی کی عید ہے، ہر وصی کی عید ہے، اور اہلِ ایمان کی سب سے بڑی عید ہے۔” یعنی یہ دن تمام انبیاء کی میراث ہے، اور ولایت کا وہ تسلسل ہے جس کی جڑیں آدمؑ سے لے کر خاتم النبیین ﷺ تک اور ان سے علیؑ کی طرف منتقل ہوئیں۔ یہی وہ پیغام ہے جو امت کے فکری اتحاد، سماجی عدل اور اخلاقی اصلاح کے لیے بنیاد فراہم کرتا ہے۔
رسولِ اکرم ﷺ نے حضرت علیؑ کے بارے میں فرمایا: “أنا مدینة العلم و علی بابها” یعنی “میں علم کا شہر ہوں اور علی اس کا دروازہ ہیں”۔ اس دروازے سے گزرے بغیر علمِ نبوی تک رسائی ممکن نہیں۔ اگر قیادت علم پر نہیں، حسب و نسب یا مال و زر پر ہو، تو قومیں گمراہی اور زوال کا شکار ہو جاتی ہیں۔ عیدِ غدیر ہمیں سکھاتی ہے کہ اصل قیادت وہ ہے جو فہم، عدل اور خدمت پر قائم ہو۔ غدیر صرف امامت کا اعلان نہیں بلکہ قیادت کی تعریف بھی ہے، وہ قیادت جو اصولوں سے جڑی ہو، نہ کہ مفادات سے۔
موجودہ حالات میں جب دنیا قیادت کے بحران، معاشی ناہمواری، ظلم و جبر، اور اخلاقی گراوٹ کا شکار ہے، عیدِ غدیر کا پیغام پہلے سے زیادہ اہمیت اختیار کر جاتا ہے۔ حضرت علیؑ وہ رہنما تھے جنہوں نے نہ صرف مسجد کے منبر سے عدل کی تلقین کی بلکہ اپنی حکومت میں عملاً عدل قائم کیا۔ انہوں نے اپنے بھائی عقیل کو بیت المال سے زائد حصہ دینے سے انکار کیا، یہاں تک کہ گرم لوہے کا ٹکڑا ان کے قریب لایا تاکہ انہیں حکومتی مال میں خیانت کے درد کا اندازہ ہو۔ آج اگر ہم واقعی علیؑ کے پیروکار ہیں تو ہمارے رویوں میں بھی وہی دیانت، وہی عدل، اور وہی احساسِ ذمہ داری ہونا چاہیے۔
امام علیؑ کی سیرت صرف عقیدے کی بنیاد نہیں بلکہ ایک سماجی نظام کا ماڈل بھی ہے۔ ان کی حکومت میں نہ رنگ و نسل کی بنیاد پر فرق روا رکھا گیا، نہ زبان یا قبیلے کی بنیاد پر۔ غیر مسلموں کے حقوق بھی محفوظ تھے، مزدور اور کسان کو بھی انصاف میسر تھا، عورتوں کو بھی عزت اور عزائم کی آزادی تھی۔ ان کی ریاست میں عدلیہ آزاد تھی اور فقیری عزت تھی، طاقت نہیں۔ یہ وہی ماڈل ہے جسے آج کی دنیا سیکولرازم یا سوشل جسٹس کے مختلف ناموں سے تلاش کر رہی ہے، مگر علیؑ نے چودہ سو سال پہلے اپنی عملی سیاست میں نافذ کر کے دکھایا۔
امام رضاؑ سے روایت ہے کہ: “غدیر وہ دن ہے جب رسولِ خدا ﷺ نے علیؑ کو لوگوں کا امام و خلیفہ مقرر کیا، اور دین مکمل ہو گیا۔ جو اس دن کو عید نہ مانے، وہ قرآن کی اس آیت کا انکار کرتا ہے جس میں دین کی تکمیل کا اعلان ہوا۔” لہٰذا اس دن کو منانا، اس کی تعلیمات کو اپنانا، اور اس کے پیغام کو عام کرنا صرف ایک مسلکی رسم نہیں بلکہ قرآنی فریضہ ہے۔آج کا دن ہم سے صرف خوشی منانے کا مطالبہ نہیں کرتا بلکہ ہم سے سوال کرتا ہے کہ ہم نے علیؑ کی ولایت کا حق ادا کیا یا نہیں؟ ہم نے ان کی صداقت، شجاعت، عدل، زہد، علم اور حلم کو اپنے کردار کا حصہ بنایا یا نہیں؟ اگر ہم واقعی ان کے چاہنے والے ہیں تو ہمیں اپنے اندر بھی وہ صفات پیدا کرنی ہوں گی جن سے ایک عادل معاشرہ وجود میں آتا ہے۔ ورنہ ہمارا دعویٰ، ہماری تقریریں اور ہمارے جشن صرف نمائشی رہ جائیں گے۔
عیدِ غدیر کا سماجی پہلو بھی نہایت اہم ہے۔ اس دن مؤمنین کو حکم دیا گیا ہے کہ ایک دوسرے کو عید کی مبارک باد دیں، روزہ رکھیں، غسل کریں، زیارتِ امیرالمؤمنینؑ پڑھیں، کھانے کھلائیں، صلح کریں، دل صاف کریں اور تعلقات کو جوڑیں۔ یہ سب عمل ایک صحت مند معاشرے کی تشکیل میں مدد دیتے ہیں۔ آج جب معاشرہ نفرت، بدگمانی، حسد، لالچ، اور انتشار کا شکار ہے، غدیر کا پیغام ایک تجدیدِ عہد ہے کہ ہم علیؑ کے ماننے والے بنتے ہوئے محبت، اخوت، تحمل اور خدمت کے علمبردار بنیں۔
ہمارے حکمرانوں، سیاست دانوں، مذہبی رہنماؤں، اساتذہ، اور نوجوانوں کے لیے عیدِ غدیر ایک آئینہ ہے۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ ملک میں عدل ہو، کرپشن ختم ہو، معاشی مساوات قائم ہو، اور علم کو وقار حاصل ہو، تو ہمیں علیؑ جیسی قیادت اور سوچ اپنانی ہو گی۔ وہ قیادت جو خود بھوکی ہو مگر رعایا کو سیر کر دے، جو دشمن کے ساتھ بھی انصاف کرے، اور جو مظلوم کے لیے ظالم کے خلاف کھڑا ہو۔
اگر ہم واقعی غدیر کے ماننے والے ہیں تو ہمیں فرقہ واریت، لسانیت، قوم پرستی، اور مفاد پرستی سے نکل کر علیؑ کے خالص بیانیے کی طرف آنا ہو گا۔ عیدِ غدیر کا پیغام کسی خاص مسلک کا نہیں بلکہ ایک عالمی انسانی منشور کا پیغام ہے، جو ہر ذی شعور، ذی عزت اور باکردار انسان کے لیے مشعلِ راہ ہے۔
آج کا دن ہمیں صرف خوشی منانے کا دن نہیں بلکہ خود احتسابی، تجدیدِ بیعت، اور عزمِ نو کا دن سمجھنا چاہیے۔ ہم سب کو چاہیئے کہ ہم عیدِ غدیر کے پیغام کو صرف تقریر اور نعرے تک محدود نہ رکھیں بلکہ اپنی انفرادی، اجتماعی، سیاسی اور اخلاقی زندگی میں اس کی جھلک دکھائیں۔ کیونکہ جس دن علیؑ کی ولایت کا اعلان ہوا، اسی دن دین مکمل ہوا، اور اسی دن انسانیت کو قیادت کا اصل چہرہ دکھایا گیا۔
Columns in Urdu, Eid-e-Ghadir