گلگت بلتستان میں خواتین کی تعلیم: روایت، رکاوٹیں اور امید کی کرن، غلام عباس
طالب علم، یونیورسٹی آف بلتستان، سکردو
ڈپارٹمنٹ آف لینگویجز اینڈ کلچرل اسٹڈیز
وجودِ زن سے ہے تصویرِ کائنات میں رنگ
اسی کے ساز سے ہے زندگی کا سوزِ دروں
گلگت بلتستان، جہاں قدرتی حسن اپنی مثال آپ ہے، وہیں اس خطے کی خواتین ایک خاموش مگر پُرعزم جدوجہد میں مصروف ہیں (تعلیم کے حق کی جدوجہد)
اگرچہ گزشتہ دہائیوں میں تعلیمی اداروں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے، مگر خواتین کی تعلیم آج بھی روایت، سماجی دباؤ اور وسائل کی کمی کے درمیان دب کر رہ گئی ہے۔
اسلام نے مرد و عورت دونوں پر علم حاصل کرنا فرض قرار دیا ہے۔ نبی کریم ﷺ کا فرمان ہے:
“علم حاصل کرنا ہر مرد و عورت پر فرض ہے۔”
تاہم گلگت بلتستان کے بیشتر دیہی علاقوں میں بیٹیوں کو “مہمان” سمجھا جاتا ہے، کیونکہ وہ شادی کے بعد شوہر کے گھر چلی جاتی ہیں۔ والدین کا ماننا ہے کہ لڑکیوں کا اصل مقام گھر کی چار دیواری ہے، اور تعلیم صرف مردوں کے لیے ہے۔ یہ سوچ نہ صرف خواتین کو ان کے بنیادی حق سے محروم رکھتی ہے بلکہ خطے کی مجموعی ترقی کو بھی سست کر دیتی ہے۔
تعلیم تک رسائی میں درپیش رکاوٹیں:
– اسکولوں کا دور ہونا
– بچیوں کا گھر سے باہر نہ جا سکنا
– مالی وسائل کی کمی
– لڑکوں کو ترجیح دینا
– مخلص اساتذہ اور رہنماؤں کی کمی
– کو ایجوکیشن کا معاشرتی طور پر ناقابل قبول ہونا
تاہم، تبدیلی کی ہوا چل پڑی ہے۔ کچھ مقامی تنظیمیں اور نوجوان خواتین خود میدان میں نکل کر تعلیم کی اہمیت اجاگر کر رہی ہیں۔ اسکولوں میں داخلے کی شرح میں بتدریج اضافہ ہو رہا ہے، اور کئی لڑکیاں اعلیٰ تعلیم حاصل کر کے معاشرے میں مثبت کردار ادا کر رہی ہیں۔
قانون نے خواتین کو سیاسی، سماجی، معاشی اور مذہبی حقوق دیے ہیں، مگر تعلیم کی کمی کی وجہ سے وہ ان حقوق سے فائدہ نہیں اٹھا پاتیں۔ وہ نہ ووٹ دینے، نہ جائیداد میں حصہ لینے، نہ اپنے شوہر سے علیحدگی جیسے حقوق استعمال کرتی ہیں۔ تعلیم ہی انہیں ہمت، شعور اور خود اعتمادی دے سکتی ہے۔
لہٰذا حکومتِ گلگت بلتستان کو چاہیے کہ وہ اس جدوجہد کو تقویت دے نہ صرف تعلیمی ادارے قائم کر کے بلکہ سماجی شعور بیدار کر کے۔ جب گلگت بلتستان کی ہر بیٹی کو تعلیم کا حق ملے گا، تب ہی یہ خطہ حقیقی ترقی کی راہ پر گامزن ہو سکے گا۔
جیسا کہ ایڈورڈ جیمز نےکہا:
“تعلیم تشدد کے خلاف ویکسین ہے۔”
column in urdu, Women’s Education in Gilgit-Baltistan