column in urdu, Violation special people rights 0

معاشرے کے خصوصی افراد کے حقوق کی پامالی ,قدامات اور حل، یاسر دانیال صابری
( فکری سفر)
معاشرے کے خصوصی افراد کے حقوق کی پامالی ,قدامات اور حل، یاسر دانیال صابری
وہ بھی ہمارے جیسے ہیں… مگر ہم ان جیسے کیوں نہیں بنتے؟
ہم نے بچپن میں اکثر سنا ہوگا کہ اللہ کی بنائی ہر تخلیق خوبصورت ہے، مکمل ہے، اور کسی نہ کسی مقصد کے لیے ہے۔ مگر پھر ہم جیسے جیسے بڑے ہوتے گئے، ہم نے اس سبق کو بھلا دیا۔ ہمیں بتایا گیا کہ آنکھیں نہ ہوں تو اندھیرا ہے، پاؤں نہ ہوں تو منزل نہیں، اور زبان نہ ہو تو اظہار نہیں۔ لیکن کیا یہ سچ ہے؟ یا ہماری سماجی سوچ نے ہمیں ایسا سکھا دیا ہے؟ ہم نے “مکمل انسان” کی تعریف صرف اُس معیار تک محدود کر دی ہے جو جسمانی اور ذہنی صلاحیت پر مبنی ہو، اور جو اس معیار سے ہٹ جائے، وہ ہمارے لیے صرف ایک بوجھ بن جاتا ہے۔
یہ بات تلخ سہی، مگر حقیقت ہے کہ پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک میں خصوصی افراد کو مساوی انسانی حیثیت نہیں دی جاتی۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہیں قدرت نے جسمانی یا ذہنی لحاظ سے مختلف ضرور بنایا، مگر محروم نہیں۔ بدقسمتی سے ہم نے انہیں محرومی، مجبوری اور ترس کا نشان بنا کر رکھ دیا ہے۔ خصوصی افراد کے لیے ہمارے معاشرے میں صرف ہمدردی کے چند رسمی الفاظ اور تقریبات مخصوص ہیں، حقیقی اقدامات نہیں۔
گلگت بلتستان جیسے حسین مگر محروم خطے میں یہ مسئلہ اور بھی گہرا ہے۔ یہاں نہ صرف بنیادی سہولیات کا فقدان ہے بلکہ خصوصی افراد کی گنتی، ان کی موجودگی، اور ان کے حقوق کا شعور ہی ناپید ہے۔ بہت سے علاقے ایسے ہیں جہاں آج تک کوئی معذور فرد رجسٹرڈ ہی نہیں، گویا وہ ریاست کے نزدیک موجود ہی نہیں۔
یہاں کا نوجوان اگر آنکھوں سے دیکھنے سے قاصر ہے، تو اس کے خواب کون دیکھے گا؟ اگر وہ سن نہیں سکتا، تو اس کی فریاد کون سنے گا؟ اور اگر وہ بول نہیں سکتا، تو اس کے جذبات کا ترجمان کون بنے گا؟ بدقسمتی سے معاشرہ ان سوالوں کا جواب نہیں دیتا، بلکہ ان سوالات کو نظر انداز کر دیتا ہے۔
ہمارے ملک میں خصوصی افراد کے لیے قانون تو موجود ہے۔ 1981ء میں معذور افراد کے لیے پہلی قومی پالیسی مرتب کی گئی، جس میں انہیں صحت، تعلیم، روزگار، اور سہولیات کی فراہمی کی ضمانت دی گئی۔ اس کے بعد مختلف ادوار میں مزید پالیسیاں بنیں، حالیہ سالوں میں معذور افراد کے لیے ملازمت میں 3 فیصد کوٹہ بھی مقرر کیا گیا، جو ایک امید کی کرن تھی۔ مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ یہ سب کاغذوں تک محدود ہے۔ عملی طور پر نہ ادارے سنجیدہ ہیں، نہ حکام۔
گلگت بلتستان میں ہزاروں ایسے نوجوان موجود ہیں جو معذور ہونے کے باوجود ذہانت، تعلیم، مہارت اور کردار کے میدان میں کسی سے کم نہیں، لیکن وہ صرف اس لیے ملازمت حاصل نہیں کر سکتے کیونکہ ان کی “مختلف” جسمانی حیثیت کو معاشرے نے ناکامی سے تعبیر کر لیا ہے۔ اگر ریاست خود اپنی پالیسی پر عمل نہیں کرتی، تو باقی ادارے کہاں سے کریں گے؟
ہماری عاجزانہ گزارش ہے کہ
خصوصی افراد کے لیے بجٹ میں مختص 3 فیصد کوٹہ کو فوری طور پر نافذ کیا جائے۔ ہر سرکاری اور نیم سرکاری ادارے کو اس پر مکمل عملدرآمد کا پابند بنایا جائے۔ جو ادارے اس کو نظر انداز کریں، ان کے خلاف تادیبی کارروائی کی جائے۔
یہ بھی نہایت ضروری ہے کہ گلگت بلتستان کے تمام اضلاع میں ایک مکمل ڈیجیٹل رجسٹریشن سسٹم بنایا جائے جہاں ہر معذور فرد کا ریکارڈ محفوظ ہو۔ یہ ڈیٹا نہ صرف پالیسی سازی میں مدد دے گا بلکہ ان افراد کو طبی، تعلیمی، اور معاشی امداد کی راہ ہموار کرے گا۔
ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ ان افراد کے لیے اسپتالوں میں سہولتیں نہ ہونے کے برابر ہیں۔ کسی بھی ضلع میں مکمل فزیوتھراپی، سائیکوتھراپی، یا معذوری کے علاج کے لیے مخصوص عملہ موجود نہیں۔ خصوصی افراد کو علاج کے لیے یا تو گلگت یا اسلام آباد کا رخ کرنا پڑتا ہے، جہاں ان کے لیے سفر ہی ایک عذاب بن جاتا ہے۔
اسی طرح تعلیمی میدان میں بھی ان کی محرومیاں واضح ہیں۔ بہت کم اسکول یا کالج ایسے ہیں جہاں نابینا طلبہ کے لیے بریل کتب، سماعت سے محروم بچوں کے لیے سائن لینگویج، یا جسمانی معذوری کے شکار طلبہ کے لیے ریمپ یا خصوصی سہولیات موجود ہوں۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ وہ بچہ جو معاشرے کا ایک اثاثہ بن سکتا تھا، وہ اپنے ہی گھر کی چاردیواری میں خاموش ہو جاتا ہے۔
خصوصی افراد کی ایک بڑی شکایت یہ بھی ہے کہ انہیں اکثر صرف تصویری نمائش، پروگراموں، اور یومِ معذوراں پر یاد کیا جاتا ہے۔ فوٹو سیشن میں بٹھا دیا جاتا ہے، کچھ وقت کے لیے کیمرے کے سامنے رکھا جاتا ہے، مگر ان کے مسائل پر سنجیدگی سے کام نہیں ہوتا۔ انہیں نمائندگی تو دی جاتی ہے، مگر اختیارات نہیں۔ ان کی رائے لی جاتی ہے، مگر اس پر عمل نہیں ہوتا۔ ان کے لیے امداد تو رکھی جاتی ہے، مگر ان کی خودداری کو روند کر۔
معاشرتی رویے بھی ان کے لیے زخم کا کام کرتے ہیں۔ ہمارے ہاں معذور فرد کو “اللہ کی مار” یا “مجبوری” سمجھا جاتا ہے۔ اسے ترس کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے، عزت کی نظر سے نہیں۔ خاندان میں ان کے فیصلے دوسروں کی رائے سے ہوتے ہیں، خود ان کی مرضی سے نہیں۔ ان کی شادی، تعلیم، اور روزگار سب معاشرتی مفروضوں کی بھینٹ چڑھ جاتے ہیں۔
ایسے میں کچھ سوال ہم سب سے بنتے ہیں
کیا وہ انسان نہیں؟
کیا ان کا خواب خواب نہیں؟
کیا ان کی خاموشی سوال نہیں؟
اور اگر ہے، تو ہم کب جواب دیں گے؟
ہم حکومتِ پاکستان، گلگت بلتستان اسمبلی، سوشل ویلفیئر ڈیپارٹمنٹ، اور تمام سماجی اداروں سے گزارش کرتے ہیں کہ اب صرف کاغذی اقدامات کافی نہیں۔ فوری ایکشن لیا جائے۔ ذیل میں ہم چند فوری اور ضروری اقدامات تجویز کرتے ہیں:

گلگت بلتستان میں ہر ضلع میں خصوصی افراد کے لیے مکمل بحالی مراکز قائم کیے جائیں، جہاں معالج، مشیر، آلات، اور تربیت یافتہ عملہ موجود ہو۔
تعلیمی اداروں میں ایک علیحدہ شاخ یا سیکشن قائم کیا جائے جہاں معذور طلبہ کو مساوی تعلیمی سہولیات دی جائیں۔
سرکاری ملازمت میں 3 فیصد کوٹہ پر عملدرآمد کو یقینی بنانے کے لیے مانیٹرنگ سیل قائم کیا جائے جو ہر چھ ماہ بعد رپورٹ جاری کرے۔
میڈیا کو پابند کیا جائے کہ وہ ہر ہفتہ کم از کم ایک خصوصی فرد کی کامیابی یا جدوجہد کی کہانی نشر کرے، تاکہ معاشرتی شعور پیدا ہو۔
سوشل ویلفیئر ڈیپارٹمنٹ کو بااختیار بنایا جائے، اس کے بجٹ میں اضافہ ہو، اور ہر ضلع میں عملہ تعینات کیا جائے۔
تمام غیر رجسٹرڈ خصوصی افراد کی فوری رجسٹریشن مہم چلائی جائے تاکہ کوئی بھی شہری ریاستی سہولت سے محروم نہ رہے۔
ہم جانتے ہیں کہ تبدیلی ایک دن میں نہیں آتی، مگر پہلا قدم اٹھانا آج بھی ممکن ہے۔ اگر آج ہم نے ان کی طرف ہاتھ بڑھایا، تو کل کو شاید یہ ہاتھ ہمارے لیے دعا کا وسیلہ بنے۔ اگر ہم نے ان کی زندگی میں آسانی پیدا کی، تو یہ ہمارے معاشرے کو مضبوط کرے گا۔
اس کالم کا مقصد کسی پر تنقید کرنا نہیں، بلکہ ایک آئینہ دکھانا ہے کہ ہم کہاں کھڑے ہیں، اور کہاں جانا ہے۔ ہمیں اپنی سمت درست کرنی ہوگی، ورنہ ہم خود تاریخ کے مجرم بن جائیں گے۔
آخر میں ہم ایک بار پھر حکام بالا، سیاسی قیادت، اور معاشرتی تنظیموں سے گزارش کرتے ہیں کہ
ہماری آواز کو صرف سنیں نہیں، اس پر فوری اور عملی اقدام کریں۔ یہ مطالبہ صرف قانون کی بنیاد پر نہیں، بلکہ انسانیت کی بنیاد پر ہے۔ یہ وہ لمحہ ہے جہاں ریاست اور معاشرہ اپنی نیت کو ثابت کر سکتا ہے۔
اور ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ اگر ہم نے کسی کی خاموشی کو آواز نہ دی، تو کل ہماری فریاد بھی شاید سنی نہ جائے۔

column in urdu, Violation special people rights

50% LikesVS
50% Dislikes

معاشرے کے خصوصی افراد کے حقوق کی پامالی ,قدامات اور حل، یاسر دانیال صابری

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں