کے ٹو کی وادی، سیاحت اور بقا کی جنگ. شبیر احمد شگری
“پہاڑ اپنی خاموشی میں بھی ایک زبان رکھتے ہیں۔ وہ شان و شوکت کے ساتھ کھڑے ہیں، مگر ان کے دامن میں بستی انسانی زندگیاں ہر لمحہ قدرت کی آزمائش سے دوچار ہیں۔ کے ٹو کی وادی — جہاں دنیا کے بلند ترین پہاڑ اور حسین گلیشئیرز موجود ہیں — صرف سیاحوں اور کوہ پیماؤں کے لیے جنت نہیں بلکہ یہاں کے مکینوں کی زندگی اور بقا کا سہارا بھی ہے۔ لیکن یہ وادی آج کل ایک دوہری جنگ لڑ رہی ہے: ایک طرف سیلابی ریلے اور کلاؤڈ برسٹ جیسی قدرتی آفات کا قہر، اور دوسری طرف بنیادی سہولتوں سے محرومی اور ٹوٹے ہوئے راستوں کا عذاب۔ یہ وہ خطہ ہے جو پاکستان کا فخر بھی ہے اور ہماری قومی ذمہ داری بھی۔”
———————
پہاڑ… اپنی خوبصورتی، خاموشی اور شان و شوکت کے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں… ” پہاڑوں کی یہ حسین وادیاں، جہاں فطرت اپنی خوبصورتی کے ساتھ جلوہ گر ہے، کبھی کبھار اچانک خوفناک تباہی کا منظر بھی پیش کرتی ہیں۔ قدرت کے یہ عظیم پہاڑ جب بادلوں کے قہر سے ٹکراتے ہیں تو تباہی کی داستانیں جنم لیتی ہیں۔”
کلاؤڈ برسٹ… ایک ایسا خطرناک مظہر، جب چند لمحوں میں آسمان کھل کر زمین پر ٹوٹ پڑتا ہے۔ پہاڑوں کی ڈھلوانوں سے پانی بجلی کی رفتار سے اترتا ہے، اپنے ساتھ مٹی، پتھر، کھیت اور بستیاں بہا لے جاتا ہے۔ یہ اچانک آنے والے سیلابی ریلے صرف زمینیں اور درخت نہیں بہاتے، بلکہ انسانوں کے خواب، یادیں اور زندگیاں بھی بہا دیتے ہیں۔
سب کچھ شروع ہوتا ہے آسمان سے۔
جب پہاڑوں پر اچانک موسلا دھار بارش برستی ہے یا گرمی کے سبب برف تیزی سے پگھلتی ہے، تو بڑی مقدار میں پانی یکبارگی ندی نالوں میں اتر آتا ہے۔
پہاڑوں کی ڈھلوان زمین پانی کو جذب کرنے نہیں دیتی۔یوں یہ پانی بجلی کی رفتار سے نیچے کی طرف بڑھتا ہے۔
راستے میں آنے والی ڈھیلی مٹی، بجری اور بڑے بڑے پتھر بھی اس کے ساتھ بہہ نکلتے ہیں، اور پانی کا یہ ریلہ ایک دیو ہیکل طوفان میں بدل جاتا ہے۔
جب یہ تیز رفتار ریلہ کسی تنگ وادی یا نالے میں داخل ہوتا ہے تو اس کی قوت کئی گنا بڑھ جاتی ہے۔چند ہی لمحوں میں ایک پرسکون گاؤں یا وادی تباہی کے منہ میں چلی جاتی ہے۔ اور ان سیلابی ریلوں کی زد میں جو کچھ بھی آتا ہے خس و خاشاک کی طرح بہہ جاتا ہے۔
اس عمل میں ایک اہم عنصر انسانی مداخلت کا بھی شامل ہے —۔جنگلات کی کٹائی، چراگاہوں کا ختم ہونا اور زمین کی فطری جاذبیت کو نقصان پہنچنا، بارش کے پانی کو جذب ہونے نہیں دیتا۔یوں یہ ریلے اور زیادہ تباہ کن ہو جاتے ہیں۔
ان وادیوں میں جب کوئی پل ٹوٹتا ہے یا راستہ کٹ جاتا ہے، تو یہ محض پتھروں اور سڑک کا نقصان نہیں ہوتا۔ یہ دراصل انسانوں کا باقی دنیا سے رابطہ ٹوٹ جانا ہوتا ہے۔ یہ محض ایک علاقائی سانحہ نہیں ہوتا، بلکہ ایک عالمی یاد دہانی ہے۔ کہ قدرتی آفات کے سامنے ہم سب بے بس ہیں… مگر ہم مل کر متاثرہ لوگوں کا سہارا ضرور بن سکتے ہیں۔
سیلابی ریلوں دریاؤں کی طغیانی کی وجہ سے اس وقت برالدو میں شاہراہ کے ٹو کئی روز سے بند ہے۔ یہ گلگت بلتستان بلکہ پاکستان کی بین الاقوامی اہمیت والی شاہراہ ہے جو یہاں بسنےوالوں کے علاوہ ملکی و غیر ملکی سیاحوں اور کوہ پیماؤن کو دنیا کی دوسری بلند ترین چوٹی کے ٹو اور دنیا کے دیگر بلند ترین پہاڑوں اور قطبین کے طویل ترین گلیشیرز تک لے جاتی ہے۔، شاہراہ کے ٹواس وقت شدید خستہ حالی کا شکار ہے۔ یہ شاہراہ نہ صرف مقامی عوام کی آمد و رفت کا واحد ذریعہ ہے بلکہ سیاحت، معیشت اور پاکستان کے مثبت تشخص کی علامت بھی ہے۔ مگر بدقسمتی سے کئی مقامات پر اس کی حالت اتنی خراب ہو چکی ہے کہ عوام کی جان و مال کو مسلسل خطرات لاحق ہیں۔ اس کی وجہ صرف اس وقت کے سیلابی طوفان نہیں ہیں بلکہ پہلے ہی متعلقہ محکموں کی بے توجہی کا شکار ہے۔
شاہراہ کے ٹو پر مسائل کے حل کے لئے ہمیشہ احتجاج ہوتے رہے ہیں لیکن اس دفعہ کا احتجاج انوکھا تھا جس میں نہ صرف علاقہ برالدو کے مکینوں نے حصہ لیا بلکہ غیر ملکی سیاح اور کوہپیما نے بھی مطالبہ کیا کہ یہاں کے پلوں اور دشوار گزار راستوں کو اچھی حالت میں بنایا جائے تاکہ نہ صرف یہاں کے لوگوں کو آسانی ہو بلکہ سیاھو اور کوہ پیماؤن کو بھی سہولت ہو۔
ناقص انفراسٹرکچرپر شدید تحفظات کا اظہار کیا۔ مقامی میڈیا سے بات کرتے ہوئے ایک غیر ملکی سیاح نے کہا ” ہمیں زیادہ بجلی کی ضرورت ہے۔ یہاں کے لوگوں کی مدد کریں کہ نئی سڑک بنائیں۔ یہ مسائل حل کریں — یہاں آنا اور یہاں رہنا بہت مشکل ہے۔ ہم آپ کے ساتھ ہیں، ہم امید کرتے ہیں آپ یہ جنگ جیتیں گے۔” اس احتجاج کی اصل وجہ برالدو ویلی کے عوام کی مشکلات تھیں، جہاں لوگ کافی دنوں سے کٹے ہوئے راتوں دریا برد پلوں اور بجلی کے بغیر زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ گاؤں کے گاؤں اندھیرے میں ڈوبے ہوئے ہیں۔
پلوں کے دریا برد ہونے اورسڑکیں بند ہونے کی وجہ سے دونوں جانب نہ صرف مختلف ممالک سے آئے ہوئے سیاح اور کوہ پیما پھنس چکے ہیں بلکہ مقامی افراد کے لئے خوراک کی قلت کے علاوہ مریضوں اور طلبا کے لئے بھی بڑا مسئلہ پیدا ہوگیا ہے
اسکولی اور تستے و کورفے کے درمیان والا پُل سال پہلے دریا برد ہوگیاتھا لیکن ابھی تک اس پر کام نہیں کیا گیا ہے۔اور تستے کی عوام نے اپنی مدد آپکے تحت پیدل اور گھوڑوں خچروں کے لئے پل تعمیر کیا ہے۔
اس سال برالدو کے علاقے سینو میں کافی نقصانات ہوئے ہیں پاور ہاوس کی طرف جانے والا راستہ دونوں طرف سے سیلاب میں بہہ گیا ہے۔اس کے علاوہ پیدل چلنے والا پل، کلوٹ، 18 سے 20 کنال زمینیں،تین واٹر چینلزمکمل اور پکے سیمنٹ سے بنا ہوا واٹر چینل 600 فٹ کے قریب سیلاب میں بہہ چکا ہے۔ ۔
کورفے میں پیدل چلنے والا پُل بھی پانی میں بہہ گیا ہے اور کاشت والی زمینیں اور مویشی سیلابی ریلوں کی زد میں آگئی ہیں۔
ایک اور مقام آسمانی موڑ پر بھی پل اور راستہ دریا برد ہوگیاہے۔ جہاں کس خطرے میں مقامی لوگ گذر رہے ہیں آپ دیکھ سکتے ہیں۔
اسکولی سے آگے جولا پُل بھی سیلاب کی زد میں آچکا ہے۔ پلوں کے ٹوٹنے کی وجہ سے لوگوں کو خطرناک متبادل راستوں کو استعمال کرنا پڑ رہا ہے۔ یہ وادی کے ٹو کی وہ غریب عوام ہے۔ جو صرف اپنے بچوں کا پیٹ پالنے کی فکر میں نہیں ہیں بلکہ دنیا کی دوسری بلند تریں چوٹی کے ٹو اور پاکستان کا نام روشن کرنے کی بھی کوشش کررہے ہیں کیونکہ یہاں اس وقت بہت سارے ممالک سے آنے والے سیاح اورکوہ پیما جن سے حکومت پاکستان شاید کروڑوں اربوں ڈالر وصول کرتی ہے لیکن اس میں سے اس علاقے پر خرچ کتنا کرتی ہےیہ آپ خود دیکھ سکتے ہیں۔
حکومت پاکستان اور مقامی انتظامیہ سے درخواست ہے کہ بے شک قدرتی آفات کا مقابلہ کوئی طاقت نہیں کرسکتی لیکن کم از کم جب پُل بنائیں تو مظبوط ہوں اور ایسے مقامات پر بنائے جائیں جہاں سیلاب کا خطرہ نہ ہو۔ راستے کھلے اور مطبوط ہوں ۔ تاکہ دوسرے ممالک سے آنے والے سیاح اور کوہ پیما بھی مطمئن واپس جائیں۔کے ٹو اور دنیا کی دوسری بلند ترین چوٹیاں اور گلیشئیرز جو اس مقام پر موجود ہیں یہ صرف اس علاقے کے لئے ہی نہیں بلکہ پورے پاکستان کے لئے فخر کا باعث ہیں۔ خدارا اس بین الاقوامی اہمیت کی شاہراہ ، شاہراہ کے ٹو پر بھی کچھ توجہ دیں جس سے نہ صرف پاکستان کی سیاحت کو فروغ ملے گا بلکہ اس علاقے کا باسیوں کی زندگی میں بھی تبدیلی آئے گی۔ ساتھ ساتھ اس اہم اور پسماندہ علاقے کی عوام کے لئے زیادہ سے زیادہ صحت، تعلیم اور روزگار کی سہولتیں فراہم ہوں گی۔۔
*”یہ پہاڑ… یہ وادیاں… یہ زمینیں، صرف خوبصورتی نہیں بلکہ ہزاروں خاندانوں کی زندگی اور روزگار کا سہارا ہیں۔
مگر ہر سال اچانک آنے والے سیلابی ریلے سب کچھ بہا لے جاتے ہیں — گھر، کھیت، خواب… اور کبھی کبھی اپنی پیاری جانیں بھی۔
یہ آفات قدرت کی آزمائش ہیں، لیکن متاثرین کو تنہا چھوڑ دینا ہماری غفلت۔
سیلابی ریلے صرف زمینیں اور فصلیں ہی نہیں بہاتے، بلکہ زندگیوں، روزگار اور خوابوں کو بھی ساتھ لے جاتے ہیں۔
قدرتی آفات کو روکا تو نہیں جا سکتا، لیکن صحیح منصوبہ بندی، ماحول کے تحفظ، اور بروقت حفاظتی اقدامات کے ذریعےان کے اثرات کو کم ضرور کیا جا سکتا ہے۔ورنہ پہاڑوں کی یہ خاموش وادیاں بار بار ہمیں اپنی بے بسی اور انسان کی محدود طاقت کی یاد دلاتی رہیں گی۔
ہم حکومتِ پاکستان اور متعلقہ اداروں سے پُر زور اپیل کرتے ہیں کہ وہ ان علاقوں کی طرف فوری اور سنجیدہ توجہ دیں۔متاثرہ خاندانوں کو انصاف، مدد اور سہارا دیں۔ان کی داد رسی کریں۔
کیونکہ یہ صرف ایک گاؤں یا ایک وادی کا مسئلہ نہیں…یہ کے ٹو اور دیگر اہم پہاڑوں کی سرزمین کا معاملہ ہے۔ پاکستان کا معاملہ ہے۔یہ ہماری آنے والی نسلوں کا مستقبل ہے۔
آئیں! سب مل کر ان وادیوں کی حفاظت کریں، یہاں کے لوگوں کو خوشحال بنائیں تاکہ یہ پہاڑ ہمیشہ زندگی اور امید کا استعارہ بنے رہیں۔”*
تاکہ یہاں کے غریب باسیوں کی آنکھوں میں بھی امید کی کرن جاگ اٹھے۔ اور ان کا مستقبل روشن ہو۔
کے ٹو کی وادی، سیاحت اور بقا کی جنگ. شبیر احمد شگری
column in urdu, Valley of K-2