سفرِ بلتستان: ایک خوبصورت خطہ، آمینہ یونس سکردو بلتستان
آج ہم بچوں کو پاکستان کے ایک ایسے علاقے کی سیر کراتے ہیں، جہاں کی آب و ہوا سرد ہے، لوگ محنتی، مخلص اور مہمان نواز ہیں۔ یہاں اونچے اونچے پہاڑ، دریا، آبشاریں اور سردیوں میں برف باری ہوتی ہے۔ جی ہاں! اس خوبصورت اور دل فریب خطے کو سرزمینِ بلتستان کے نام سے جانا جاتا ہے۔
تو بچوں! آج میں آپ کو دنیا کے دوسرے بلند ترین پہاڑ “کے ٹو” کے بارے میں بتانے جا رہی ہوں۔ یہ عظیم پہاڑ بلتستان میں اپنی پوری شان و شوکت کے ساتھ موجود ہے۔ “کے ٹو” پاکستان کے لیے ایک نہایت اہم اور منافع بخش پہاڑ ہے، جو سیاحت کے لحاظ سے بے حد فائدہ مند ثابت ہو سکتا ہے۔ لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ آج تک اس خوب صورت علاقے کو صوبے کا درجہ نہیں دیا گیا، اس کی وجہ معلوم نہیں۔
بلتستان پانچ اضلاع پر مشتمل ہے، جن میں “سکردو” اس کا صدر مقام ہے۔
آئیے! ہم آپ کو بلتستان کے “ضلع شگر” کی سیر کراتے ہیں۔ یہ ضلع اپنی معدنی دولت کے ساتھ ساتھ قدرتی حسن میں بھی بے مثال ہے۔
سکردو سے تقریباً 45 منٹ کی مسافت پر واقع شگر جانے کے لیے پہاڑوں کو کاٹ کر راستہ بنایا گیا ہے۔ اس راستے میں کئی موڑ آتے ہیں، جو سفر کو مزید دلچسپ بناتے ہیں۔ جیسے ہی ہم شگر میں داخل ہوتے ہیں، ایک خوش گوار منظر ہماری آنکھوں کے سامنے آتا ہے- جہاں دور تک بلند و بالا پہاڑ، بہتے دریا اور سرسبز درخت نظر آتے ہیں۔ یہ دل فریب مناظر دیکھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔
شگر میں داخل ہوتے ہی درختوں سے گھری سڑکیں، سڑک کے کنارے بنی ہوئی دکانیں اور وہاں دستیاب ضروریاتِ زندگی کی اشیاء کے ساتھ ساتھ مقامی پھل فروخت ہوتے نظر آتے ہیں۔ راستے کے اطراف کھیتوں میں کام کرتے مرد و عورت دیکھے جا سکتے ہیں، کیونکہ بلتستان میں مرد اور عورت دونوں مل کر کھیتوں میں محنت کرتے ہیں۔
یہاں کی زمین معدنی اور زرعی دولت سے بھی مالا مال ہے۔ مختلف اقسام کے معدنیات یہاں پائے جاتے ہیں۔ زرعی پیداوار میں آلو کی کاشت بڑے پیمانے پر کی جاتی ہے، جو سکردو اور پھر پاکستان کے دیگر شہروں میں بھیجا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ، یہاں کے سیب، خوبانی اور خوبانی کا تیل بھی بہت مشہور ہیں۔
خوبانی کو ایک خاص انداز میں خشک کیا جاتا ہے۔ اسے درمیان سے چیر کر اس میں موجود گٹھلی نکالی جاتی ہے اور پھر مخصوص طریقے سے سُکھایا جاتا ہے۔ یہ “خشک خوبانی” بازاروں میں فروخت کے لیے رکھی جاتی ہے۔ یہاں آنے والے سیاح انہیں اپنے لیے اور اپنے عزیزوں کے لیے بطور تحفہ خرید کر لے جاتے ہیں۔
یہاں کے قیمتی پتھروں سے انگوٹھیاں، چائے کے پیالے، چوڑیاں اور دیگر سجاوٹی اشیاء بنائی جاتی ہیں، جو اپنی انفرادیت کی وجہ سے بہت مشہور ہیں۔ لوگ دور دور سے ان اشیاء کو خریدنے کے لیے یہاں آتے ہیں، خاص طور پر شگر کے صدر مقام پر یہ چیزیں عام ملتی ہیں۔
“کے ٹو” تک پہنچنے کے لیے ایک طویل سفر طے کرنا پڑتا ہے۔ شگر کے صدر مقام سے ایک دن کی مسافت پر شگر کا آخری گاؤں آتا ہے، جہاں تک سیاح گاڑی میں آتے ہیں۔ اس کے بعد وہ مزید آگے پیدل سفر کرتے ہیں۔ آخری گاؤں سے کے ٹو کے دامن تک پہنچنے میں تقریباً چھ دن لگتے ہیں۔
یہاں پہنچنے والے سیاح مقامی لوگوں کی مدد سے اپنے ٹینٹ لگاتے ہیں اور موسم کے صاف ہونے کا انتظار کرتے ہیں۔ بعض اوقات موسم کی خرابی کے باعث انہیں کئی دن، بلکہ کبھی کبھار مہینوں تک انتظار کرنا پڑتا ہے تاکہ وہ اپنا سفر جاری رکھ سکیں اور کے ٹو سر کرنے کے اپنے خواب کو حقیقت میں بدل سکیں۔
پیارے بچو ! یہ تھی سرزمینِ بلتستان کی ایک جھلک۔ ان شاء اللہ، اگلی بار ہم آپ کو پاکستان کے کسی اور خوبصورت مقام کی سیر کرائیں گے۔ تب تک کے لیے اللہ حافظ!
column in urdu, Travel to Baltistan beautiful region
پاکستان ریلوے کرایہ ریٹ، اور ان لائن ٹکٹ سسٹم، شیڈول . پاکستان ریلوے ٹکٹ ریٹ،
گلگت بلتستان میں 34 افراد تاحال لاپتہ ہیں گلگت بلتستان میںمسنگ پرسن کی تعداد میں مسلسل اضافہ
لٹکا ہوا گلگت بلتستان، یوسف علی ناشاد گلگت