دنیور سانحہ قیمتی جانیں اور ۔شہداء کا درجہ دیا جائے ، ہماری بزرگوں کی غفلت ، یاسر دانیال صابری
دنیور نالے کے حادثے میں جان دینے والے عوامی رضاکار محض حادثے کے شکار نہیں بلکہ اس دھرتی کے سچے سپاہی اور شہداء ہیں۔ انہوں نے اپنی جانیں اس وقت قربان کیں جب وہ دنیور کی پیاسی زمین، اس کے پودوں، جانوروں اور باسیوں کے لیے پانی کا چشمہ کھولنے کی جدوجہد کر رہے تھے۔ یہ کوئی معمولی خدمت نہ تھی، بلکہ زندگی دینے والی سب سے بڑی عبادت تھی۔ ایسے باہمت اور بے لوث نوجوانوں کو صرف تعزیت کے جملوں تک محدود رکھنا ان کے خون کی توہین ہوگی۔ ان کی قربانی اس بات کی حق دار ہے کہ ریاست انہیں سرکاری سطح پر شہید تسلیم کرے، تاکہ آنے والی نسلیں یہ جان سکیں کہ حقیقی قربانی میدانِ جنگ میں ہتھیار سے ہی نہیں، خدمت کے بیلچے اور کدال سے بھی دی جاتی ہے۔
دنیور نالہ… یہ نام کبھی محض ایک حسین وادی اور بہتے پانی کے پرسکون منظر کی پہچان تھا۔ مگر اب یہ لفظ سنتے ہی دل پر ایک بوجھ اتر آتا ہے، سانس بھاری ہو جاتی ہے، اور آنکھوں میں ایک ایسی تصویر ابھرتی ہے جس میں امید، قربانی، اور بے بسی سب ایک ساتھ سمٹ آئے ہیں۔ یہ سانحہ محض ایک حادثہ نہیں تھا، بلکہ ہماری اجتماعی سوچ، حکومتی بے حسی، اور ترجیحات کی تلخ حقیقت کا عکاس ہے۔
میں نے پہلے ہی دن خبردار کیا تھا کہ یہ مقام نہایت خطرناک ہے۔ پانی کے راستے میں اس قدر نازک اور غیر محفوظ جگہ پر بغیر کسی مکمل تیاری اور حفاظتی اقدامات کے کام کرنا، گویا موت کو آواز دینا تھا۔ مگر میری بات کو سنجیدہ نہ لیا گیا۔ ایک بزرگ نے مسکرا کر کہا: “یہ خطرناک نہیں ہے، سب خیریت ہوگی۔” اور میں نے دل ہی دل میں سوچا کہ ہم لوگ خطرے کو تب تک تسلیم نہیں کرتے جب تک وہ ہمیں چھو نہ لے۔
پھر وہ دن آیا جب دنیور کے عوامی رضاکار دن رات ایک کر کے پانی لانے کی کوشش میں لگ گئے۔ وہ اپنے گھروں سے دور، بھوک پیاس سہتے، پتھریلے راستوں پر محنت کرتے، دنیور کی پیاسی زمین اور انسانوں کے لیے زندگی کا چشمہ کھولنے نکلے تھے۔ مگر افسوس، حکومت کا کردار صرف بیانات اور تصویروں تک محدود رہا۔ عملی میدان میں ان کی موجودگی صفر رہی۔ عوام کو “رجاکی” کے نام پر حوصلہ تو دیا گیا مگر حفاظت کا کوئی بندوبست نہ ہوا۔ اور پھر… ان معصوم ہاتھوں نے جو بیلچہ اور کدال پکڑ کر امید کے چشمے تراش رہے تھے، لمحوں میں خاموش ہو کر جان دے دی۔
یہ حادثہ اچانک نہیں ہوا۔ اس کے پیچھے برسوں کی کوتاہی، ناقص منصوبہ بندی، اور سیاسی بے حسی کی طویل تاریخ ہے۔ اس سے پہلے بھی بڑے دعوے ہوئے۔ ایک شخص، مشتاق، نے کہا تھا کہ وہ 72 گھنٹوں میں پانی پہنچا دے گا۔ مگر اس کی جلدبازی اور غیر معیاری حکمت عملی نے چینل کو پھر سے ناکارہ بنا دیا۔ فنڈز خرچ ہوئے، ٹھیکے لیے گئے، مگر نتیجہ صفر۔ عوام کا درد جوں کا توں باقی رہا۔
میں خود بھی جب وہاں رضاکارانہ طور پر پہنچا تو دل دہل گیا۔ مٹی اور پتھروں کا ایک کمزور سا ڈھانچہ، جو کسی بھی وقت زمین بوس ہو سکتا تھا، کو امید کی علامت بنا کر کھڑا کیا گیا تھا۔ پھر یہ فیصلہ ہوا کہ کچھ نوجوان رات بھر وہیں رکیں گے تاکہ کام جاری رہے۔ ان کے چہروں پر تھکن کی لکیریں تھیں مگر عزم کی روشنی اب بھی چمک رہی تھی۔ انہیں اندازہ بھی نہ تھا کہ یہ ان کی زندگی کا آخری پہر ہے۔
اور پھر… وہ لمحہ آیا جب موت نے اپنی آہنی گرفت میں لے لیا۔ جگہ نہایت خطرناک تھی۔ وہاں ماہر انجینئرنگ ٹیم اور جدید حفاظتی آلات درکار تھے، مگر ہم نے سب کچھ عوامی رضاکاروں کے ناتواں کندھوں پر ڈال دیا۔ حکومت کی عملی کارکردگی ایک بار پھر صفر رہی، اور بیانات و تعزیتوں کے سوا کچھ نہ ملا۔
افسوس کی بات یہ ہے کہ دنیور نالے میں اس سے پہلے بھی سیاست دان آتے رہے، سیلاب کے بعد وعدے کرتے، سوشل میڈیا پر تصاویر لگواتے، مگر جیسے ہی کیمروں کی فلیش بجھتی، وہ غائب ہو جاتے۔ برسوں سے اس علاقے کے نام پر ووٹ لینے والے ایک بار پھر بے عمل نکلے۔ جھوٹ اور فریب کی اس سیاست نے عوام کو یتیم چھوڑ دیا۔
یہ حادثہ محض دنیور کا نہیں بلکہ پورے نظام کا نوحہ ہے۔ ہم خوش فہمیوں کے فیتے کاٹنے میں فخر محسوس کرتے ہیں مگر عوام کی بنیادی ضرورت — پینے کے پانی — کو سالہا سال نظر انداز کرتے ہیں۔ ہم قربانی دینے والوں کی تصویریں تو سجاتے ہیں مگر ان کی حفاظت کے لیے ایک روپیہ بھی خرچ کرنے کو تیار نہیں ہوتے۔
وہ نوجوان رضاکار جو اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر میدان میں اترے، دراصل سچے شہید ہیں۔ وہ صرف پانی نہیں لا رہے تھے بلکہ امید کے بہتے چشمے کھول رہے تھے۔ وہ دنیور کے روشن چراغ تھے جنہوں نے اپنی زندگی اس زمین، اس کے پودوں، جانوروں اور انسانوں کے لیے قربان کر دی۔ ان کی قربانی کو فراموش کرنا محض غفلت نہیں بلکہ ایک اور ظلم ہوگا۔ اگر ہم نے آج ان کے خون کی حرمت کو پہچان کر انہیں شہداء کا درجہ نہ دیا تو کل یہ تاریخ ہمیں مجرم ٹھہرائے گی۔
ان نوجوانوں کی یاد میں صرف فاتحہ پڑھ لینا کافی نہیں، بلکہ ہمیں عملی اقدامات کرنے ہوں گے۔ ریاست اور حکومت پر یہ اخلاقی اور قانونی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ نہ صرف ان شہداء کے اہل خانہ کو مالی اور اخلاقی سپورٹ فراہم کرے بلکہ آئندہ ایسے کاموں کے لیے جدید حفاظتی اقدامات اور ماہر انجینئرنگ ٹیمیں تعینات کرے۔ رضاکاروں کا جذبہ قیمتی ہے، مگر ان کی جان اس سے کہیں زیادہ قیمتی ہے۔
آج ہمیں یہ عہد کرنا ہوگا کہ کسی بھی عوامی خدمت یا ترقیاتی کام میں انسانی جان کو معمولی نہ سمجھا جائے۔ ان رضاکاروں کی قربانی محض ایک سانحہ نہیں، بلکہ ایک پیغام ہے — کہ قوم کی خدمت سب سے بڑی عبادت ہے، چاہے وہ میدانِ جنگ میں کی جائے یا وادی کے نالے میں۔
میری دعا ہے کہ اللہ رب العزت ان شہداء کے درجات بلند فرمائے، ان کے لواحقین کو صبر جمیل عطا کرے، اور ہمیں وہ شعور دے کہ ہم ان کی قربانی سے سبق سیکھ کر اپنے نظام کو بدل سکیں۔ کیونکہ اگر ہم نے یہ سبق نہ سیکھا تو نہ جانے کتنے اور گھر ایسے ہی اجڑ جائیں گے، اور ہماری آنے والی نسلیں بھی اسی پیاسی زمین پر آنسو بہاتی رہیں گی۔
column in urdu, tragedy of Danyur