کچھ تو غلط ہو رہا ہے (لڑکیاں) طہٰ علی تابش
کہا جاتا ہے کہ جب کچے ذہنوں میں فلسفہ، تاریخ اور ادبیات زبردستی ٹھونسے جاتے ہیں تو وہ نفسیاتی طور پر مریض بن جاتے ہیں۔
ظلم و زیادتی کے بہت سے پہلو ہیں، جن میں سے ایک کسی کمسن اور بے گناہ ذہن کو خراب کرنا بھی ہے۔
ہمارے معاشرے میں بچوں سے ڈانس کروانا، ان سے گالیاں بکوانا اور خاص طور پر ان سے بدتمیزیاں کروانا عام بات سمجھی جاتی ہے۔ باہر کے معاشرے کے علاوہ گھر کے اپنے افراد بھی اس روّیے کو بہت پروموٹ کرتے ہیں۔
جبکہ وہ بچہ خود نہیں جانتا کہ جو کچھ وہ کر رہا ہے یا اس سے کروایا جا رہا ہے، وہ صحیح بھی ہے یا غلط۔
یہ بات طے ہے کہ بچے پندرہ سے اٹھارہ سال کی عمر تک صحیح اور غلط میں تمیز کرنے سے قاصر رہتے ہیں۔ سگمنڈ فرائڈ (ماہرِ نفسیات) نے اسے تفصیلی طور پر بیان کیا ہے۔
ان ذہنی نشوونما کو برباد کرنے والی چیزوں میں سے ایک، کم سن بچیوں کے ذہنوں میں شادی کی باتیں اور اس سے متعلقہ امور ٹھونسنا ہے۔ میں نے اکثر ماؤں کو اپنے پانچ سال کی بھی نہ ہونے والی لڑکیوں سے بار بار کہتے سنا ہے:
“کل کو اپنے گھر جاؤ گی تو کیا کرو گی ؟”
اسی طرح ایک اسکول کے بچیوں سے ڈیٹا کلیکشن کے دوران دنگ رہ گیا کہ بچیوں کو اپنے خاندان کا پتہ ہو یا نہ ہو، لیکن پانچویں اور چھٹی کلاس کی بچیوں کو لفظ “سسرال” اور اس سے متعلقہ باتیں اچھی طرح معلوم تھیں۔
جبکہ اسی کلاس کے تقریباً نوے فیصد بچوں (لڑکوں ) کے لیے “میکے”، “ہمسفر” جیسے الفاظ بالکل نئے تھے۔
اور جب وہی کمسن لڑکیاں جوں جوں بڑی ہوتی جاتی ہیں، ان کے دل و دماغ میں صرف ایک لفظ رہ جاتا ہے: “شادی” اور “اپنا گھر”۔
یہ وہ زنجیریں ہیں جو انہیں آگے بڑھنے ہی نہیں دیتیں۔
اسی لیے پاکستان جیسے ممالک میں نوے فیصد لڑکیاں یونیورسٹی کی چار سالہ ڈگری مکمل کرنے سے پہلے ہی گھر داری کی چونگل میں پھنس جاتی ہیں۔
اور وہ بھی اپنی مرضی سے نہیں، بلکہ گھر والوں کی مرضی سے۔
حال ہی میں میرے کسی عزیز دوست کا نکاح ہوتے ہوتے رک گیا۔لڑکا راضی، لڑکی راضی، باپ، بھائی، بہنیں سب راضی، لیکن ماموں کو رشتہ پسند نہ آیا۔ جب شریعت کا مطالعہ کیا تو ماموں کا کردار اس میں صفر تھا۔
خیر، کہنے کا مقصد یہ ہے کہ ہم شریعت کو بھی اپنے حساب سے چلاتے ہیں۔
تدریسی شعبہ سے میرا تعلق ہے ، تو طلبہ و طالبات کے بارے میں کافی مشاہدہ کرنے کا موقع ملتا ہے ۔
خاص طور پر ان کے کچھ سوالات رونگٹے کھڑے کر دیتے ہیں، اور خاموش رہنے کے سوا ہمارے پاس کوئی دوسرا آپشن ہی نہیں ہوتا کیونکہ انہیں سمجھانا ہی مشکل ہوتا ہے کہ جو غلط ہو رہا ہے وہ غلط ہے ۔
اس تحریر کے ذریعے بس اتنا بتانا چاہتا ہوں کہ لڑکیوں کے ذہنوں کو کم عمری میں ہی تباہ نہ کریں۔ انہیں آگے بڑھنے دیں۔
رشتوں کی بات تب کریں جب وہ بالغ ہو جائیں۔
یہ الفاظ: شادی، سسرال، ساس، بہو اور گھریلو باتیں پانچ، چھ، دس سال کی لڑکیوں کے لیے ہرگز نہیں ہیں۔
یہ وہ باتیں ہیں جو انہیں صرف ذہنی طور پر پریشان کرتی ہیں۔ جب وقت آئے گا، تب بتا دیں گے۔
آپ نے ساری زندگی اپنی بچیوں کو صبر کرنا سکھایا، رونا سکھایا، شوہر داری سکھائی، لیکن انہیں تعلیم نہیں دی، انہیں بہادر نہیں بنایا۔ اس کی کیا گارنٹی ہے کہ ان کا شوہر نسلی نکلے۔
کل کو خدانخواستہ شوہر کم ظرف، کتوں والی خصلت کا اور بے ایمان نکلا تو کیا کرو گے؟
جب عزتِ نفس مجروح ہو جائے، یا بات عزت تک آ جائے، تب بھی اپنی بیٹیوں سے کہو گے کہ صبر کرو، برداشت کرو۔
میری التجا ہے، خاص طور پر معاشرے کی ماؤں سے، کہ وقت کے حساب سے بچوں کی تربیت کریں۔ بچوں کے سامنے فضول گفتگو سے گریز کریں۔
اپنی بچیوں کو تعلیم دیں، ہنر سکھائیں۔
پہلے کچھ لحاظ بھی ہوتا تھا اب لوگ ڈیجٹل ہوگیا ہے ، صرف مفاد دیکھتا ہے ۔
کل کو خدانخواستہ ان کا گھر میں نہ بنے، تو وہ کم از کم اپنی حفاظت کر سکیں اور خود کو پال سکیں۔
Column in Urdu, something wrong




