IMG 20251012 WA0092 0

اگر میرے کاندھوں پر یہ ذمہ داری نہ ہوتی تومیں سوشل میڈیا کی ایک ٹیم بناتا. شبیر احمد شگری
“اگر میرے کاندھوں پر یہ ذمہ داری نہ ہوتی تومیں سوشل میڈیا کی ایک ٹیم بناتا اور میں اس ٹیم کی سربراہی اپنے ہاتھ میں لیتا اور سوشل میڈیا کے ذریعے دین مبین اسلام کی حقیقی رخ کی ترجمانی کرتا اور لوگوں کے ذہن سازی کے لیے اس سے بھرپور طریقے سے استفادہ کرتا۔ لیکن میں جس مقام پر ہوں کہ میرے پاس اس کام کیلئے وقت نہیں ہے لہذا یہ کام آپ لوگ کریں۔”. رہبر معظم آیت اللہ العظمٰی سید علی خامنہ ای

Thank you for reading this post, don't forget to subscribe!

سوشل میڈیا رحمت ہے یا زحمت
تحریر: شبیر احمد شگری
وَقُولُوا لِلنَّاسِ حُسْنًۭا۔“اور لوگوں سے نرمی اور بھلائی کی بات کہا کرو۔”سورۃ البقرۃ:
وقت کے ساتھ ساتھ قلم اور کاغذ کی جگہ کی بورڈ اور سکرین نے لے لی ہے۔ لیکن اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہے کہ ہماری ذمہ داریاں ختم ہوگئی ہیں۔ بلکہ اس جدید دور میں جب دنیا بھر کی معلومات آپ کے فنگر ٹپس پر ہوں تو آسانی کے ساتھ ساتھ آپ کی ذمہ داری بہت زیادہ بڑھ گئی ہے۔ اگر ہم آج سوشل میڈیا کو قرآنی و اسلامی روشنی میں استعمال کریں تو یہ ہمارے لئے باعث رحمت ثابت ہوسکتی ہے۔ مگر اس کا غلط استعمال خطرناک ہوسکتا ہی نہیں بلکہ ہورہا ہے۔ اب سوشل میڈیا کے ذریعے جنگیں بھی لڑی جارہی ہیں جو ہتھیاروںسے زیادہ خطرناک ہیں۔ اس صدی کے آغاز سے ہی سوشل میڈیا نے ایک دم کروٹ لی اور بہت کچھ بدل کر رہ گیا ہے۔ سوشل میڈیا کی اس کروٹ کے ساتھ ہی میں اس کے ساتھ مشغول رہا ہوں اور اپنے تئیں روایتی انداز سے ہٹ کر اس سے بھرپور مثبت فائدہ بھی اٹھایا ہے۔اور مجھے پڑھنے ،سننے اور جاننے والے احباب اس سےبخوبی واقف ہیں کیونکہ وہ بھی اس سے جُڑے ہوئے ہیں۔ سچ پوچھیں تو سوشل میڈیا پرجو مقام ملا ہے یہ آپ سب کی محبتوں اور حوصلہ افزائی ہی کی وجہ سے ہے۔
رہبر معظم آیت اللہ العظمٰی سید علی خامنہ ای جیسی عظیم شخصیت سوشل میڈیا کی اہمیت کے بارے میں تاکید کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔
“اگر میرے کاندھوں پر یہ ذمہ داری نہ ہوتی تومیں سوشل میڈیا کی ایک ٹیم بناتا اور میں اس ٹیم کی سربراہی اپنے ہاتھ میں لیتا اور سوشل میڈیا کے ذریعے دین مبین اسلام کی حقیقی رخ کی ترجمانی کرتا اور لوگوں کے ذہن سازی کے لیے اس سے بھرپور طریقے سے استفادہ کرتا۔ لیکن میں جس مقام پر ہوں کہ میرے پاس اس کام کیلئے وقت نہیں ہے لہذا یہ کام آپ لوگ کریں۔”
رہبر معظم کا سوشل میڈیا کے بارے میں یہ بیان انتہائی اہمیت کا حامل ہے کیونکہ ان کی دنیا کے حالات و معاملات پر گہری نظرہے اس فرمان کو ہم واقعی بہتر طور پر سمجھ سکتے ہیں کیونکہ ہم ایک طرح سے سوشل میڈیا کے گرداب میں پھنسے ہوئے ہیں نہ نکل سکتے ہیں نہ رہ سکتے ہیں۔ بدقسمتی سے آج سوشل میڈیا اورجدید ٹیکنالوجی اغیار کے ہاتھوں میں ہیں ۔ کہنے کو تو یہاں آزادی رائے کا حق سب کو حاصل ہے لیکن یہ سب دکھاوا اور جھوٹ ہے۔ کمیونٹی گائیڈ لائنز کی آڑ میں مغرب نواز سوشل میڈیا کے پلیٹ فارمز آج صرف اپنے نظریات اور حقوق کے تحفظ میں لگے ہوئے ہیں۔ لیکن یہ اپنے علاوہ دوسروں کو کچھ نہیں سمجھتے ۔ میری طرح بے شمار سوشل میڈیا صارفین ہیں جو ہمارے عظیم شہداء اور عالم اسلام کے جانباز ہیروز ہیں ان کا نام بھی لکھیں یاان کی کوئی تصویر بھی لگا دیں تو ان کے اکاونٹ بلاک کردئیے جاتے ہیں۔ خود ذاتی طور پر مجھے اس سلسلے میں بے انتہا ذہنی کوفت اور اذیت کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ سب سے زیادہ تکلیف اس بات پر ہوتی ہے کہ یہ کہا جاتا ہے کہ آپ دہشت گرد تنظیم کو سپورٹ کررہے ہیں اس لئے آپ کا چینل یا اکاؤنٹ بلاک کیا جاتا ہے۔ لیکن ان کی نظر میں معصوم بچوں ، عورتوں ضعیفوں کو شہید کرنا سکولوں اور ہسپتالوں پر بمباری کرنا، کسی دوسرے کی ارض پر قابض ہوجانا یہ سب جائز ہے ہاں حق کی آواز بلند کرنا اپنے حقوق مانگنا، اس جدوجہد میں جان دیکر شہید ہوجانا وہ دہشت گردی ہے۔حقوق انسانی کے راگ الاپنے والے ان نام نہاد دعویداروں سے کوئی یہ پوچھے کہ یہ کون سے اظہار رائے کی آزادی ہے کہ خود مغربی میڈیا چیخ چیخ کر جھوٹ بول رہا ہوتا ہے اور ظلم کرکے خود کو مظلوم کو ظالم کہہ رہا ہوتا ہےاور انسانی حقوق کا دعویدار بنتا ہے۔نہ صرف یہ بلکہ اسی سوشل میڈیا کے ذریعے ہمارے لوگوں کو گمراہ اور بچوں اور جوانوں کو اخلاقی بے راہ روی کی طرف لے جارہا ہے۔
حال ہی میں اسرایلی وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ اب ایک نئی قسم کی جنگ اور نئے ہتھیاروں کی ضرورت ہے اور دور حاضر کا سب سے اہم ہتھیار سوشل میڈیا پلیٹ فارمز ہیں۔
غفلت کی نیند سے بیدار ہوکراس بات کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ دشمن بہت چالاک اور شاطر ہے۔آج آپ کا لکھا اور بولا ہوا ایک ایک لفظ اغیار کے دسترس میں ہے۔ دشمن جدید ٹیکنالوجی اور سوشل میڈیا کو استعمال کرتے ہوئے اپنی غلطیاں بھی چھپا رہا ہے ، خود کو مظلوم اور دوسرے کو ظالم بھی دکھا رہا ہے۔ آج موبائل فون دودھ پیتے بچے سے لے کر سن رسیدہ افراد سوشل میڈیا میں غرق ہیں۔میں تو یہ کہوں گا موبائیل ان کے گرفت میں نہیں بلکہ موبائیل کے ذریعے صارف خود دشمن کی گرفت میں ہے۔ اسی سوشل میڈیا کے غلط استعمال نے ہمارے اخلاقی اقدار کو تباہ کر رکھا ہے۔ایک کمرے میں بیٹھے گھر کے تمام افراد جسمانی طور پر ایک دوسرے کے قریب ہی موجود ہوتے ہیں لیکن دماغی اور فکرو خیالی میں ہزاروں میل دور دوسرے براعظموں میں پہنچےہوتے ہیں۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ اس مشکل میں ہم قرآن اور اسلام کا دامن مظبوطی سے تھام لیں۔ سوشل میڈیا کےاس محاظ پر درست سمت میں اخلاقی و اسلامی اقدار کو لے کر چلنے کی اشد ضرورت ہے۔ سوشل میڈیا سے نفرت یا دوری اختیار کرنے کی بجائے وقت کی ضرورت کے مطابق اپنا بھرپور کردار ادا کریں۔امیدوں کے چراغ سے چراغ جلاتے جائیں اور اپنے اردگرد دین،اخلاق، تربیت اور ذمہ داری کی روشنی پھیلائیں ماحول کو روشن کریں۔افواہ،تہمت، فریب ، جھوٹ اور بداخلاقی سے پرہیز کریں۔حقائق اور رہنمائی کا استعمال کریں۔ بغیر تصدیق کے یا کسی بھی قسم کے انتشار والی پوسٹیں شئیر کرنے سے پرہیز کریں۔ اور اپنی ذمہ داری کا ثبوت دیں۔
اسلام ہمیں سوشل میڈیا سے منع نہیں کرتا، بلکہ اس کے اخلاقی اصول و ضوابط کی وضاحت کرتا ہے۔قرآن ہمیں سکھاتا ہے کہ بولنے سے پہلے سوچو، شیئر کرنے سے پہلے تحقیق کرو ۔تہمت سے پرہیز کرو۔اگر ہم سوشل میڈیا کو علم، محبت، انصاف اور خیر کے لیے استعمال کریں تو یہی پلیٹ فارم دعوتِ حق کا سب سے بڑا ذریعہ بن سکتا ہے۔
اللہ پاک سورہ تکاثر میں ارشاد فرماتا ہے۔” اور پھر تم سے اس دن نعمت کے بارے میں سوال کیا جائے گا” سوشل میڈیا بھی اللہ کی دی ہوئی ایک نعمت ہے۔ اسے غنیمت سمجھتے ہوئے اس سے بھرپور استفادہ کریں۔جس طرح زبان، مال،علم اور دوسری چیزوں کے بارے میں پوچھا جائے گا،اسی طرح اس ڈیجیٹل طاقت کے بارے میں بھی سوال ہوگا کہ تم نے اسے خیر میں استعمال کیا یا شر میں۔
shigricolumns@gmail.com

50% LikesVS
50% Dislikes

اگر میرے کاندھوں پر یہ ذمہ داری نہ ہوتی تومیں سوشل میڈیا کی ایک ٹیم بناتا. شبیر احمد شگری

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں