سیاسی عدم استحکام اور پاکستان
, یاسر دانیال صابری
پاکستان کی سب سے بڑی کمزوری اس کا مستقل سیاسی عدم استحکام ہے۔ قیامِ پاکستان کے بعد سے آج تک ملک میں کوئی ایسا دور نہیں آیا جسے ہم حقیقی معنوں میں جمہوری تسلسل کا دور کہہ سکیں۔ کبھی مارشل لا نے اقتدار کو اپنی مٹھی میں لیا، کبھی سیاسی جوڑ توڑ نے عوامی مینڈیٹ کو پامال کیا، اور کبھی طاقتور طبقوں نے جمہوریت کو اپنی مرضی کے سانچے میں ڈھال دیا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ عوامی نمائندگی ایک خواب بن کر رہ گئی، اور اقتدار کا کھیل چند ہاتھوں تک محدود ہو گیا۔
یہی سیاسی بے یقینی گلگت بلتستان میں بھی پوری شدت سے محسوس کی جاتی ہے۔ یہاں کے عوام ہمیشہ سے اپنی شناخت، اپنے حقوق، اور اپنی نمائندگی کے لیے کوشاں رہے ہیں، مگر ہر بار ان کے ووٹ کی طاقت کو پسِ پشت ڈال کر اقتدار کا فیصلہ وفاق کی پسند و ناپسند کے مطابق کر دیا جاتا ہے۔
جب بھی وفاق میں کسی پارٹی کی حکومت آتی ہے، گلگت بلتستان میں عموماً وہی پارٹی “غالب اتفاق” کے ساتھ اقتدار میں لائی جاتی ہے۔ عوامی مینڈیٹ اور مقامی سیاسی فضا کی کوئی اہمیت نہیں رہتی۔ وفاقی اثرورسوخ، سرکاری وسائل، اور طاقت کے زور پر انتخابات کا رخ موڑ دیا جاتا ہے۔ یوں عوام کے ووٹ کی حرمت ایک رسمی کارروائی بن کر رہ جاتی ہے۔
اگر حلقہ تین کی مثال لی جائے تو صورتحال بالکل واضح ہو جاتی ہے۔ اس حلقے میں کپٹن ریٹائرڈ محمد شفیع ایک ایسا نام ہے جس نے برسوں سے عوام کی حقیقی نمائندگی کی ہے۔ وہ نہ صرف ایک ایماندار، بہادر، اور خدمت گزار شخصیت کے طور پر جانے جاتے ہیں بلکہ عوام کے دلوں میں ان کا مقام کسی سیاستدان سے بڑھ کر ایک رہنما کا ہے۔ ان کی کامیابیاں عوامی اعتماد کا مظہر ہیں، لیکن افسوسناک امر یہ ہے کہ جب بھی وفاق میں کسی دوسری پارٹی کی حکومت ہوتی ہے تو گلگت بلتستان میں اسی جماعت کے نمائندے کو “انتظامی تعاون” اور “سیاسی ہتھکنڈوں” کے ذریعے کامیاب قرار دیا جاتا ہے۔
یہ صرف ایک حلقے کا مسئلہ نہیں بلکہ تقریباً تمام حلقوں میں یہی طرزِ عمل اپنایا جاتا ہے۔ ووٹنگ کے دوران مختلف حربوں کے ذریعے عوام کے ووٹ ضائع کیے جاتے ہیں، نتائج میں تاخیر کر کے مطلوبہ امیدوار کو فائدہ پہنچایا جاتا ہے، اور پھر وفاقی حکومت کی پشت پناہی حاصل کرنے والے امیدواروں کو اقتدار کے قریب کر دیا جاتا ہے۔ نتیجتاً، ایک محنتی، تعلیم یافتہ، اور دیانتدار نمائندہ عوامی خدمت سے محروم رہ جاتا ہے، اور عوام کے اصل مسائل ایوانوں تک پہنچ ہی نہیں پاتے۔
گلگت بلتستان کے عوام کے لیے یہ صورتحال کسی بڑے المیے سے کم نہیں۔ یہاں کے لوگ پُرامن، باشعور، اور محبِ وطن ہیں۔ وہ بارہا اپنے ووٹ کے ذریعے یہ ثابت کر چکے ہیں کہ وہ جمہوریت پر یقین رکھتے ہیں۔ مگر جب ان کے فیصلے کو اقتدار کے ایوانوں میں نظرانداز کر دیا جاتا ہے، تو ان کے اندر مایوسی اور بے بسی بڑھتی ہے۔ یہی احساسِ محرومی وقت کے ساتھ ریاست سے اعتماد کے فاصلے کو بڑھاتا ہے۔
کپٹن (ر) محمد شفیع جیسے عوامی نمائندے دراصل گلگت بلتستان کی سیاست میں امید کی علامت ہیں۔ وہ اپنے علاقے کی ترقی، نوجوانوں کے روزگار، اور تعلیمی اصلاحات کے لیے آواز بلند کرتے ہیں، مگر بدقسمتی سے ان کی یہ آواز اقتدار کے شور میں دب جاتی ہے۔ اگر وفاقی طاقت کے بجائے عوامی طاقت کو معیار بنایا جائے، تو گلگت بلتستان میں نہ صرف قیادت مضبوط ہوگی بلکہ پورے خطے کے مسائل بھی کم ہوں گے۔
وفاقی حکومتوں کو یہ سمجھنا چاہیے کہ عوامی مینڈیٹ کے احترام کے بغیر نہ جمہوریت مضبوط ہو سکتی ہے، نہ ریاست۔ گلگت بلتستان کوئی سیاسی تجربہ گاہ نہیں بلکہ ایک حساس، باعزت اور باشعور خطہ ہے۔ یہاں کے لوگوں کو اپنا نمائندہ خود چننے کا حق ہے، اور اس فیصلے کو کسی سیاسی مفاد یا پارٹی لائن کے تحت مسخ کرنا دراصل قومی اتحاد کے جذبے کو کمزور کرتا ہے۔
اب وقت آ گیا ہے کہ ہم یہ تسلیم کریں کہ سیاسی استحکام صرف اسی صورت ممکن ہے جب عوامی رائے کا احترام کیا جائے۔ گلگت بلتستان کے عوام کے ووٹ پر کسی کا دباؤ نہ ہو، اور جو نمائندہ عوام کے ووٹ سے جیتے، اسے ہی ایوان میں ان کی آواز بننے دیا جائے۔ اگر ہم نے اس اصول کو مضبوط نہ کیا تو وفاق اور گلگت بلتستان کے درمیان بداعتمادی کی دیوار مزید بلند ہوتی جائے گی۔
سیاسی استحکام کا مطلب صرف حکومت کا تسلسل نہیں بلکہ عوام کا اعتماد ہے۔ اگر عوام کو یقین ہو کہ ان کا ووٹ ہی ان کی طاقت ہے، تو وہ کبھی قانون شکنی، انتشار، یا بیرونی مداخلت کا شکار نہیں ہوں گے۔ لیکن اگر ان کے ووٹ کی حرمت بار بار پامال کی گئی تو نہ صرف سیاست، بلکہ پورا نظام عوام سے بیگانہ ہو جائے گا۔
اس لیے وقت کا تقاضا ہے کہ گلگت بلتستان کے عوامی مینڈیٹ کا احترام کیا جائے۔ کپٹن ریٹائرڈ محمد شفیع جیسے رہنماؤں کو ان کی کارکردگی اور عوامی خدمت کی بنیاد پر تسلیم کیا جائے، نہ کہ وفاقی پارٹیوں کی مرضی کے تابع رکھا جائے۔ یہی وہ راستہ ہے جو نہ صرف گلگت بلتستان بلکہ پورے پاکستان میں حقیقی جمہوریت، عوامی اعتماد اور سیاسی استحکام کی ضمانت بن سکتا ہے