درخت کٹ رہے ہیں، نسلیں مر رہی ہیں یا درخت لگائیں زندگی بچائیں ، یاسر دانیال صابری
کبھی کبھی یوں محسوس ہوتا ہے جیسے زمین پر زندگی کا شور نہیں، موت کی چاپ سنائی دے رہی ہو۔ ہریالی کی جگہ بنجر پن، پرندوں کی جگہ خاموشی، اور تازہ ہوا کی جگہ آلودہ سانسیں ہماری روزمرہ زندگی کا حصہ بن چکی ہیں۔ مگر ہم ہیں کہ اب بھی خواب غفلت میں ہیں، اب بھی ترقی کا مطلب صرف سیمنٹ، لوہا، اور شیشے کی اونچی دیواروں کو سمجھتے ہیں۔ ہم بھول چکے ہیں کہ اصل ترقی وہ ہوتی ہے جس میں ہوا سانس لینے کے قابل ہو، پانی پینے کے قابل ہو، اور درخت سایہ دینے کے قابل ہوں۔
وقت بہت قریب ہے جب ہم کٹے ہوئے درختوں کے تنوں کو گنیں گے، مگر ان کی چھاؤں کو نہ پا سکیں گے۔ جب آخری پرندہ آسمان چھوڑ دے گا، آخری مچھلی دریا سے نکل جائے گی، اور آخری قطرہ زہر بن جائے گا، تب شاید ہمیں سمجھ آئے گا کہ نوٹ نہ کھائے جا سکتے ہیں، نہ پئیے جا سکتے ہیں۔ ہم نے جو سہولتیں اپنی زندگی میں لیں، اس کا تاوان ہماری اگلی نسلیں اپنی سانسوں سے ادا کریں گی۔ مگر کیا ہمیں پرواہ ہے؟
ہم نے زمین کو بازار بنا دیا۔ جنگل کی قیمت لگا دی، دریا کو خرید و فروخت کا حصہ بنا دیا، اور ہوا کو زہریلا کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ ترقی کے نام پر کٹتے درخت ہمیں ترقی یافتہ نہیں، تباہ حال بناتے جا رہے ہیں۔ ہر درخت جو کٹتا ہے، ایک سانس ہم سے چھن جاتی ہے۔ ہر سایہ جو مٹتا ہے، ایک امید دم توڑتی ہے۔ ہم بھول گئے ہیں کہ درخت صرف آکسیجن نہیں دیتے، یہ زمین کو تھامتے ہیں، بارش کو بلاتے ہیں، پرندوں کو گھر دیتے ہیں، اور انسان کو زندگی دیتے ہیں۔
یاد کیجیے وہ دن جب آپ نے بچپن میں درخت کے نیچے بیٹھ کر چھاؤں لی تھی، اپنے دادا دادی کے ساتھ درختوں کے نیچے کہانیاں سنیں تھیں۔ وہ سب کچھ آج کی نسل کے لیے خواب بن گیا ہے۔ شہروں میں اب درخت کم اور بل بورڈ زیادہ ہیں۔ دیہات میں اب لکڑی کاٹنے کی دوڑ ہے، درخت اگانے کی نہیں۔ ہم نے زمین کے وجود کو خود اپنی عارضی خواہشات کے قدموں تلے روند دیا ہے۔ایک تحقیق کے مطابق دنیا ہر سال 150 بلین درخت کھو دیتی ہے، اور ان میں سے صرف آدھے سے بھی کم درخت دوبارہ لگائے جاتے ہیں۔ پاکستان، جو کبھی درختوں کی دولت سے مالا مال تھا، آج دنیا کے ان ممالک میں شامل ہے جہاں جنگلات کی شرح خطرناک حد تک کم ہو چکی ہے۔ گلوبل وارمنگ، سیلاب، لینڈ سلائیڈنگ، پانی کی قلت، اور بیماریاں—یہ سب ہماری انہی “ترقی یافتہ” حرکتوں کا نتیجہ ہیں۔ہم نے اپنے شہر کو جدید بنانے کے لیے جو درخت کاٹے، ان کے بدلے کیا ملا؟ آلودہ فضا، گرمی کی شدت، بجلی کا بحران، اور بیمار سانسیں۔ سڑکیں تو بن گئیں، مگر ان پر چلنے والی زندگیاں تھک گئیں۔ پل تو کھڑے ہو گئے، مگر درخت گر گئے۔ اب جب ہم ان پلوں سے گزرتے ہیں تو سایہ نہیں ملتا، صرف سورج کی تپش جلاتی ہے۔
شاعر نے کیا خوب کہا تھا:
؎ یہ جو شجر کٹ رہے ہیں، یہ صرف لکڑیاں نہیں
یہ سانسیں ہیں، یہ سایے ہیں، یہ مستقبل کے خواب ہیں
اب بھی وقت ہے کہ ہم سنبھل جائیں۔ ہر درخت جو آپ آج لگائیں گے، وہ کل آپ کی نسلوں کو زندگی دے گا۔ درخت ایک طویل مدتی سرمایہ کاری ہیں—نہ صرف معیشت میں، بلکہ انسانیت میں بھی۔ یہ وہ عطیہ ہیں جو آنے والی نسلوں کو بغیر وصیت کے منتقل ہو جاتا ہے۔ آپ چاہیں تو اپنی نسل کو بنک بیلنس چھوڑ سکتے ہیں، مگر وہ سانس صرف درخت ہی دے سکتا ہے۔
آئیے سوچیں کہ ہم میں سے ہر ایک سال میں صرف پانچ درخت لگائے، تو پاکستان میں سالانہ 100 کروڑ سے زائد درخت لگائے جا سکتے ہیں۔ یہ خواب نہیں، حقیقت بن سکتی ہے، اگر ہم خود کو بدل لیں۔ اگر ہم ایک موبائل فون، ایک کار، یا ایک لباس پر ہزاروں روپے خرچ کر سکتے ہیں، تو ایک درخت کے لیے چند منٹ اور چند روپے کیوں نہیں؟ درخت لگانا صرف حکومت کی ذمہ داری نہیں، یہ ہر انسان کی اجتماعی اور انفرادی ذمہ داری ہے۔ کیا ہی خوب ہو کہ ہم اپنی خوشی، سالگرہ، یا بچے کی پیدائش پر ایک درخت لگائیں۔ کیا ہی بہتر ہو کہ ہر سکول، کالج اور یونیورسٹی میں درخت لگانے کی مہم چلائی جائے۔ مسجدوں میں صرف عبادت نہ ہو، درخت لگانے کی تربیت بھی ہو۔ محفلوں میں صرف چائے نہ ہو، شجر کاری پر بات ہو۔درخت لگانا صدقہ جاریہ ہے۔ یہ نہ ختم ہونے والا نیکی کا عمل ہے۔ ایک درخت جو آپ نے لگایا، وہ آنے والے کئی برسوں تک انسانوں، پرندوں، اور جانوروں کی خدمت کرتا رہے گا۔ آپ دنیا سے جا بھی چکے ہوں گے، مگر وہ درخت آپ کے نام کی زندگی کی علامت رہے گا۔ کیا آپ ایسا نفع بخش کام کرنا نہیں چاہتے؟
آج کل کے بچے جب سکول جاتے ہیں تو ان کے نصاب میں ماحولیات کی کتابیں تو شامل ہوتی ہیں، مگر ان کے ماحول میں درخت شامل نہیں۔ وہ کتابوں میں ہریالی پڑھتے ہیں، مگر راستے میں دھول دیکھتے ہیں۔ ان کا بچپن کنکریٹ کے جنگل میں گم ہو چکا ہے۔ ہم ان کو فطرت سے جدا کر کے ترقی کے نام پر کیسی دنیا دے رہے ہیں؟ حکومت کو بھی چاہیئے کہ درخت کاٹنے پر سخت سزا مقرر کرے، اور شجر کاری کرنے والوں کو انعام دے۔ یہ کام کسی ایک ادارے، کسی ایک حکومت، یا کسی ایک مہم کا نہیں، بلکہ پوری قوم کے اجتماعی شعور کا تقاضا ہے۔ ہمیں اپنے بچوں کو تعلیم کے ساتھ درختوں کا تحفہ بھی دینا ہو گا۔ درخت لگائیے، کیونکہ یہ وہ دعا ہے جو مٹی سے اُگتی ہے، آسمان کو چھوتی ہے، اور نسلوں کو چھاؤں دیتی ہے۔ یہ زندگی ہے، یہ فطرت ہے، یہ سکون ہے، اور یہ خدا کی رحمت ہے
درخت صرف لکڑی کا نام نہیں، یہ خدا کی جانب سے زمین پر زندگی کے بکھرے ہوئے عکس ہیں۔ ان کو بچانا، لگانا، اور پروان چڑھانا ہمارے ایمان، ہماری اخلاقیات، اور ہماری انسانیت کا تقاضا ہے۔ آئیں! ہم سب مل کر آج سے ایک عہد کریں:
“میں ہر سال کم از کم پانچ درخت لگاؤں گا، اور دوسروں کو بھی اس کار خیر میں شریک کروں گا۔”
یہ وعدہ صرف زمین سے نہیں، اپنی نسل سے ہے۔
یہ عہد صرف ماحول سے نہیں، خدا سے ہے۔
درخت لگائیں… کیونکہ یہی زندگی کی علامت ہیں۔
وسلام column in urdu, Plant trees, save lives.