پیکا ایکٹ قانون ، یاسر دانیال صابری

پیکا ایکٹ قانون ، یاسر دانیال صابری
پاکستان میں “پیکا ایکٹ” (پاکستان الیکٹرانک کرائمز ایکٹ) کے خلاف صحافیوں کا احتجاج حالیہ برسوں میں تیز ہوا ہے، خاص طور پر جب اس قانون کے تحت حکومت نے آن لائن مواد کی نگرانی اور اس پر پابندیاں عائد کرنے کی کوششیں تیز کی ہیں۔ 2016 میں منظور ہونے والے اس ایکٹ کا مقصد سائبر کرائمز جیسے ہیکنگ، جعلی خبروں اور آن لائن بدنامی کو روکنا تھا، لیکن اس کے کچھ ضوابط صحافیوں، انسانی حقوق کے کارکنوں اور میڈیا کے آزادی کے حامیوں کے لیے تشویش کا باعث بن گئے ہیں۔
صحافیوں اور میڈیا تنظیموں نے اس ایکٹ کے خلاف احتجاج شروع کیا ہے کیونکہ وہ اسے اظہار رائے کی آزادی پر ایک حملہ سمجھتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اس قانون کے ذریعے میڈیا اور صحافیوں کو حکومت کے دباؤ میں لانے کی کوشش کی جا رہی ہے، تاکہ وہ حکومت کی پالیسیوں اور اقدامات پر تنقید نہ کریں۔ ان احتجاجی مظاہروں میں صحافیوں نے اس ایکٹ کی غیرجمہوری نوعیت کی مذمت کی ہے اور مطالبہ کیا کہ اس قانون میں ضروری تبدیلیاں کی جائیں تاکہ آزادی اظہار رائے کو یقینی بنایا جا سکے۔آزادی اظہار کسی بھی ریاست وملک میں حق و حقوق کے زمرے میں آتی ہے ہم آزاد قوم ہے ۔ صحافیوں اور میڈیا تنظیموں نے مطالبہ کیا ہیں کہ پیکا ایکٹ کی وہ شقیں ختم کی جائیں جو اظہار رائے کی آزادی کو متاثر کرتی ہیں، خاص طور پر وہ جو حکومت کو مواد کی نگرانی کا اختیار دیتی ہیں۔۔ صحافیوں نے یہ بھی مطالبہ کیا ہے کہ انہیں حکومت کی طرف سے قانونی تحفظ دیا جائے تاکہ وہ اپنے کام میں آزادانہ طور پر کام کر سکیں، بغیر کسی خوف یا دباؤ کے اور آزاد رائے حق کی ضمانت ہے
صحافیوں نے ایک آزادانہ اور شفاف تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے تاکہ ان کے خلاف کی جانے والی قانونی کارروائیوں کی غیرجانبدارانہ جانچ کی جا سکے اور غیر ضروری گرفتاریوں یا الزامات سے بچا جا سکے۔
پیکا ایکٹ کے خلاف صحافیوں کا احتجاج بنیادی طور پر اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ یہ قانون پاکستان میں آزادی صحافت کے لیے ایک بڑا چیلنج بن چکا ہے۔ اس احتجاج کی حمایت میں مختلف عالمی تنظیموں نے بھی آواز اٹھائی ہے اور حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اس قانون میں مناسب ترامیم کرے تاکہ اظہار رائے کی آزادی اور صحافت کے حقوق کو تحفظ دیا جا سکے۔
پیکا ایکٹ کی مختلف دفعات کی بنا پر حکومت یا کسی بھی شخص کی یا ادارے کی خلاف ورزی پر تنقید کرنے کے لئے سوشل میڈیا پر اظہار رائے کرنا عوامی سطح پر پیچیدہ اور خطرناک ہو سکتا ہے۔ اس قانون کے تحت اگر کسی نے کسی سرکاری یا کسی ادارے کی غلطی یا کرپشن پر تبصرہ کیا، تو اس کے خلاف قانونی کارروائی ہو سکتی ہے۔ اس طرح، عوامی سطح پر آزادی اظہار رائے کو محدود کرنے کا خدشہ بڑھ جاتا ہے۔محدود کیا ہے ۔مذید دباؤ کیوں ڈالا جا رہا ہے۔پیکا ایکٹ کی موجودگی سوشل میڈیا صارفین کو یہ خوف دلاتی ہے کہ کہیں وہ کسی بات یا تصویر کی وجہ سے قانونی مسائل کا شکار نہ ہو جائیں۔ اس سے صارفین میں خود سنسرشپ پیدا ہو سکتی ہے، جہاں وہ اپنے خیالات اور آراء کو اظہار کرنے میں ہچکچاہٹ محسوس کرتے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ سوشل میڈیا پر عام لوگ کم آزادانہ طور پر بات کرتے ہیں۔
پیکا ایکٹ کے بعض حصے ایسے ہیں جنہیں بد نیتی سے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ مثلاً، اگر کوئی شخص کسی کی ذاتی زندگی پر تبصرہ کرتا ہے یا سوشل میڈیا پر اس کے بارے میں کچھ شیئر کرتا ہے تو اس کے خلاف شکایت دائر کی جا سکتی ہے۔ بعض اوقات یہ شکایات انتقامی یا ذاتی دشمنی کی بنیاد پر کی جا سکتی ہیں، جس سے کسی فرد کی زندگی متاثر ہو سکتی ہے۔ پیکا ایکٹ میں موجود پیچیدہ زبان اور دفعات لوگوں کو پریشانی میں مبتلا کر سکتی ہیں، خاص طور پر ان افراد کو جو قانون سے واقف نہیں ہیں۔ بہت سے لوگوں کو یہ معلوم نہیں ہوتا کہ سوشل میڈیا پر کیا پوسٹ کرنا قانونی ہے اور کیا نہیں۔ اس کی وجہ سے عوام کو ان نقصانات کا سامنا ہوتا ہے جو وہ بغیر کسی مقصد کے قانون کی جکڑ میں آ کر برداشت کرتے ہیں۔
پیکا ایکٹ کے تحت حکومتی اداروں کو یہ اختیار حاصل ہوتا ہے کہ وہ کسی شخص کی ذاتی معلومات اور ڈیٹا تک رسائی حاصل کر سکیں، اگر انہیں لگے کہ اس شخص نے کسی قسم کا آن لائن جرم کیا ہے۔ اس سے پرائیویسی کی خلاف ورزی ہو سکتی ہے، کیونکہ افراد کا ذاتی ڈیٹا حکومتی اداروں یا دوسرے افراد کی نگرانی میں آ سکتا ہے۔
بعض اوقات پیکا ایکٹ کے تحت شکایات کا اندراج بہت وسیع اور غیر واضح ہوتا ہے۔ اس کے نتیجے میں غیر ضروری طور پر افراد کو ہراساں کرنے کی شکایات پیدا ہو سکتی ہیں، جن کی بنیاد پر کارروائیاں کی جاتی ہیں، جو عوامی سطح پر افراد کے ذہنی سکون کو متاثر کرتی ہیں۔
اس قانون کے تحت حکومت یا دیگر ادارے کسی بھی خبر یا معلومات کی چھان بین کر سکتے ہیں اور اس پر پابندی لگا سکتے ہیں۔ کبھی کبھار یہ عمل حکومت کی طرف سے ہونے والی غلط معلومات کی چھپائی یا ناپسندیدہ معلومات کو چھپانے کی کوشش ہو سکتا ہے، جو ایک جمہوری معاشرت میں مسئلہ بن سکتی ہے۔اسطرح بعض دفعہ یہ قانون عوام کے لئے فائدہ مند بھی ہے۔جس کی وجہ سے جرائم کم ہو سکتے ہیں ۔یہ عوام کے لئے مفید ہے مگر صحافیوں کے لئے نقصاندہ ہے۔
پیکا ایکٹ کی متعدد دفعات اس بات کو یقینی بناتی ہیں کہ انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا پر اظہار رائے کو سختی سے کنٹرول کیا جائے۔ یہ صحافیوں کو اپنی رائے دینے میں محتاط کرنے پر مجبور کر سکتا ہے، کیونکہ انہیں خوف ہوتا ہے کہ اگر وہ حکومت یا طاقتور شخصیات کے بارے میں کچھ لکھتے ہیں، تو وہ ایکٹ کی خلاف ورزی کے مرتکب ہو سکتے ہیں۔
پیکا ایکٹ میں جھوٹی معلومات یا غلط خبریں پھیلانے کے خلاف سخت دفعات شامل ہیں، لیکن اس کی تشریح غیر واضح ہو سکتی ہے۔ یہ صحافیوں کے لیے ایک خطرہ بن سکتا ہے عوام کے لئے بھی کیونکہ حکومت یا دیگر ادارے اپنے فائدے کے لیے استعمال کر سکتے ہیں اور صحافیوں پر مقدمات قائم کر سکتے ہیں اگر ان کی خبریں کسی کو ناپسند آئیں، چاہے وہ حقیقت پر مبنی ہوں۔
پیکا ایکٹ کے تحت، حکومت کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز یا ویب سائٹس کو بند کر سکے یا ان پر مواد کو ڈیلیٹ کرنے کا حکم دے سکے۔ اس سے صحافیوں کو غیر جانبدارانہ رپورٹنگ کرنے میں مشکلات پیش آ سکتی ہیں، کیونکہ حکومت کسی بھی خبر کو “غلط” قرار دے کر اسے حذف کروا سکتی ہے، جس سے آزاد صحافت متاثر ہو سکتی ہے۔۔۔۔
پیکا ایکٹ کے تحت صحافیوں کو یہ خطرہ ہو سکتا ہے کہ اگر ان کا مواد حکومت یا کسی فرد کے خلاف تنقید یا اعتراض پر مبنی ہو، تو ان کے خلاف مقدمات درج کیے جا سکتے ہیں۔ اس طرح کے مقدمات صحافیوں کو خاموش کرانے کے لیے استعمال کیے جا سکتے ہیں، اور انہیں اپنی صحافتی ذمہ داریوں کو ادا کرنے میں رکاوٹ بن سکتے ہیں۔
پیکا ایکٹ کے تحت فرضی اور مبہم الزامات عائد کر کے صحافیوں کو ہراساں کیا جا سکتا ہے۔ اس سے ایک خوف و ہراس کا ماحول پیدا ہو سکتا ہے جس میں صحافی اپنی آزادی کے ساتھ کام کرنے کے بجائے، خود کو محدود محسوس کر سکتے ہیں۔پیکا ایکٹ کے دفعات میں صحافی کو آزادی رائے آزاد صحافت کا حق دیا جائے دیگر لوگوں کے لئے دفعات اوپن ہوں۔
پیکا ایکٹ میں نجی معلومات کی حفاظت کے حوالے سے بھی دفعات شامل ہیں، لیکن ان کی تشریح اور ان پر عملدرآمد میں صحافیوں کو مشکلات پیش آ سکتی ہیں۔ جب صحافی کسی سرکاری یا پرائیویٹ فرد کی نجی معلومات کا انکشاف کرتے ہیں، تو انہیں قانونی کارروائی کا سامنا ہو سکتا ہے، جو ان کی رپورٹنگ کے عمل کو متاثر کر سکتا ہے
پیکا ایکٹ کی مبہم دفعات صحافیوں کے خلاف دھمکیوں اور حملوں کا باعث بن سکتی ہیں۔ جب حکومت یا طاقتور ادارے کسی صحافی کو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں، تو وہ قانونی کارروائی کے ذریعے ان صحافیوں کو خاموش کرانے کی کوشش کر سکتے ہیں، جس سے صحافت کے آزادی کو نقصان پہنچتا ہے۔
پیکا ایکٹ کا مقصد الیکٹرانک جرائم کو روکنا تھا، لیکن اس کے بعض پہلوؤں نے صحافت اور اظہار رائے کی آزادی کو متاثر کیا ہے۔ صحافیوں کی آزادی پر قدغن، حکومتی سنسرشپ کا بڑھتا ہوا امکان اور قانونی کارروائیوں کا خوف، صحافت کے لیے ایک سنگین مسئلہ بن چکا ہے۔ اس ایکٹ کی کچھ دفعات میں واضحیت کی ضرورت ہے تاکہ صحافت اور اظہار رائے کی آزادی محفوظ رہے۔
پیکا ایکٹ کے کئی فوائد ہیں، جیسے سائبر کرائمز کی روک تھام اور آن لائن دھوکہ دہی پر قابو پانا، لیکن اس کے کچھ منفی اثرات بھی ہیں۔ خاص طور پر عوام کی آزادی اظہار رائے، پرائیویسی اور سوشل میڈیا پر ذاتی زندگی کی حفاظت کے حوالے سے یہ قانون کچھ مسائل پیدا کر سکتا ہے۔ اس بات کی ضرورت ہے کہ پیکا ایکٹ کو اس طرح سے نافذ کیا جائے کہ یہ عوام کے حقوق کو تحفظ دے اور کسی فرد یا گروہ کے خلاف ظلم و ستم کا باعث نہ بنے۔۔وسلام
Column in Urdu, peca act

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں