امن سے ہی ترقی ممکن ہے ، محمد سکندر کونیسی
کسی بھی مہذب ملک اور قوم کی سب سے اہم اور بڑی علامت ان کا کردار اور امن پسندی ہوتی ہے۔ وہ ملک اور قوم ہمیشہ ترقی کے راستے پر گامزن رہتے ہے اور ہر کسی کے ساتھ اچھا سلوک اور انصاف پسندی کا مظاہرہ کرتی ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ جن قوموں نے امن اور انصاف کو اپنا شعار بنایا، انہوں نے دنیا میں اپنا مقام بنایا اور آج وہ ترقی یافتہ ممالک کی صف میں کھڑے ہیں،آج دیکھیے وہ ترقی یافتہ ممالک جو امن کو اپنی ترقی کی بنیاد سمجھتے ہیں، وہ کہاں پہنچے ہیں اور دنیا کے باقی ممالک کے ساتھ کس طرح مقابلہ کر رہے ہیں، جن میں سے جاپان، جرمنی، سنگاپور اور فن لینڈ جیسے ممالک نے داخلی امن، معاشرتی انصاف اور تعلیمی ترقی پر توجہ دے کر اپنے آپ کو عالمی سطح پر مضبوط بنایا۔ ان ممالک میں قانون کی بالادستی، شفافیت اور احتساب کا نظام موجود ہے جو ترقی کی ضمانت ہے،لیکن بدقسمتی سے ہمارا ملک پاکستان جو اسلام کے نام پر بنایا گیا تھا، اور ہمارے دین اسلام میں بھی امن اور بھائی چارے کو جو مقام حاصل ہے، شاید ہی کسی اور مذہب میں ہو۔ اسلام نے انصاف، مساوات، حقوق کی ادائیگی اور امن کو اپنی تعلیمات کی بنیاد بنایا۔ قرآن مجید میں ارشاد ہے کہ انصاف کے ساتھ قائم رہو، مگر ہمارا ملک جو اسلام کے نام پر بنا ہے، لیکن صرف نام کی حد تک اسلام رہ گیا ہے، لیکن آج کے اس جدید دور میں ہر طرف ناانصافی، ظلم، زیادتی اور ایک دوسرے کا حق مارنا عام ہو چکا ہے، یہ ایک خطرناک رجحان بن چکا ہے جو ہمارے قومی شناخت کو مجروح کر رہا ہے۔ معاشرے میں اخلاقی قدروں کا زوال، بے ایمانی کا بڑھتا ہوا رجحان اور مادیت پرستی نے ہمارے معاشرے کی جڑیں کھوکھلی کر دی ہیں، لیکن افسوس کی بات ہے کہ مغربی ممالک جہاں مصنوعی ذہانت جیسے میدانوں میں ایک دوسرے سے مقابلہ کر رہے ہیں، اور ہم صرف ان کی پرانی بنائی ہوئی ٹیکنالوجی کو ایک دوسرے کو گالیاں دینے یا نفرت پھیلانے کے لیے استعمال کر رہے ہیں، سوشل میڈیا جو علم اور آگاہی کا ذریعہ ہونا چاہیے، ہم نے اسے تفرقہ اور نفرت کا آلہ بنا دیا ہے، یہ ہمارے لیے لمحۂ فکریہ ہے کہ ہمارا نظام، ہمارے ریاست اور ہمارے حکمران سب اپنے اپنے ذاتی مفادات کے لیے غریب عوام کو مشکلات میں ڈال رہے ہیں۔ ملک میں آج رشوت، حرام خوری اور بدعنوانی عروج پر پہنچ چکی ہے۔ ہر محکمے میں کرپشن کا راج ہے اور ایمانداری سے کام کرنے والے افراد کو حقارت کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ میرٹ کی بجائے سفارش اور رشوت کا دور ہے۔ قانون صرف غریبوں کے لیے ہے، انصاف ملنا بہت مشکل ہو گیا ہے۔ طاقتور اور امیر لوگ قانون سے بالاتر سمجھے جاتے ہیں جبکہ کمزور اور غریب عوام عدالتوں کے چکر لگاتے لگاتے تھک جاتے ہیں ملک میں بے روزگاری دن بدن بڑھ رہی ہے، پڑھا لکھا نوجوان مایوسی کے عالم میں ڈھکیل دیا جا رہا ہے،اور ملک میں اکثر آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہو، وہاں روزگار کے مواقع نہ ہوں تو یہ قومی سانحہ ہے۔ ہنر مند نوجوان بیرون ملک روزگار کی تلاش میں جانے پر مجبور ہیں اور ملک اپنی اصل دولت سے محروم ہو رہا ہے۔ ہر جگہ ناانصافی، ظلم اور زیادتی ہے، مگر ہمارا قانون خاموش ہے۔ آخر اس کی اصل وجہ کیا ہے؟
اس خوبصورت ملک کو بنانے کے لیے ہمارے عظیم مفکر اور رہنما قائداعظم محمد علی جناح نے بے شمار قربانیاں دے کر حاصل کیا تھا۔ انہوں نے کہا تھا کہ اتحاد، ایمان اور تنظیم ہماری کامیابی کی کلید ہے۔ لیکن آج ہم میں نہ اتحاد ہے، نہ ایمان اور نہ ہی تنظیم۔ مغربی اقوام آج اپنے نوجوانوں کو معیاری تعلیم دے کر عالمی مقابلے میں اتار رہی ہیں۔ ان کی اصل توجہ تعلیم، ہنر اور ترقی پر ہے تاکہ آنے والے وقت میں دنیا کا سامنا کر سکیں،لیکن پاکستان جیسے ملک میں، جہاں اللہ تعالیٰ نے بے شمار قدرتی نعمتیں عطا کی ہیں، ہم بدقسمتی سے ٹیکنالوجی کے اس دور میں بھی بہت پیچھے ہیں۔ اس کی سب سے بڑی وجہ ملک میں سیاسی عدم استحکام، ناقص حکمرانی اور ریاستی اداروں کی کمزور کارکردگی ہے۔ اور ہمارا تعلیمی نظام نہ صرف فرسودہ ہے بلکہ غیر مساوی بھی ہے۔ شفافیت کی کمی، احتساب کا فقدان اور اقربا پروری نے نظام کو مفلوج کر دیا ہے،اگر ہمیں اپنے ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنا ہے تو ہمیں کئی اہم قدم اٹھانے ہوں گے۔ جدید تعلیم، ہنر مندی کی تربیت اور سائنسی تحقیق پر سرمایہ کاری کرنی ہوگی۔ عدلیہ کی آزادی، فوری انصاف اور سب کے لیے یکساں قانون کا نفاذ ضروری ہے۔ شفافیت، ڈیجیٹل نظام اور سخت سزاؤں سے کرپشن کو کم کیا جا سکتا ہے۔ نوجوانوں کو ہنر مندی کی تربیت، کاروباری قرضے اور سٹارٹ اپ کلچر کو فروغ دے کر بے روزگاری کم کی جا سکتی ہے۔ امن، رواداری، باہمی احترام اور بھائی چارے کو فروغ دینا ہوگا،پاکستان اللہ تعالیٰ کی بے شمار نعمتوں سے مالا مال ہے۔ ہمارے پاس قدرتی وسائل، نوجوان آبادی اور محنتی لوگ موجود ہیں۔ ضرورت صرف اس بات کی ہے کہ ہم اپنی ذمہ داریوں کو سمجھیں، قومی مفاد کو ذاتی مفادات پر ترجیح دیں، اور اپنے مستقبل کو سنوارنے کے لیے مل کر کام کریں۔ قائداعظم نے فرمایا تھا کہ کام، کام اور صرف کام۔ اگر ہم نے اپنی محنت، ایمانداری اور اخلاص سے کام کیا تو وہ دن دور نہیں جب پاکستان دنیا کی ترقی یافتہ قوموں میں شمار ہوگا ،آج کے حالات مایوس کن ضرور ہیں، لیکن ناامید ہونا حل نہیں۔ ہر ایک کو اپنے اپنے دائرے میں بہتری لانی ہوگی۔ اگر ہم نے آج سوچنا اور عمل کرنا شروع نہ کیا تو کل بہت دیر ہو جائے گی۔ یہ وقت ہے کہ ہم اپنے آپ سے سوال کریں کہ ہم اپنے ملک کے لیے کیا کر رہے ہیں؟ یاد رکھیے، تبدیلی اوپر سے نہیں، نیچے سے آتی ہے۔ جب ہر فرد اپنی ذمہ داری ادا کرنے لگے گا، تو پورا معاشرہ بدل جائے گا۔
Column in Urdu, Peace Is the Only Path to Progress




