گلگت بلتستان لینڈ ریفارمز ایکٹ 2025پر ایک نظر، یاسر دانیال صابری
زمین محض مٹی کا ٹکڑا نہیں، جب “گلگت بلتستان لینڈ ریفارمز ایکٹ 2025” نافذ کیا گیا ہے، تو اس مقدس مٹی کے اردگرد ایک نئی بحث چھڑ گئی ہے ۔ یہ قانون عوام کے مفاد میں ہے یا اختیار کے تسلط میں؟ کیا واقعی یہ قانون انصاف، مساوات اور عوامی خودمختاری کی ضمانت بنے گا، یا یہ محض ایک اور انتظامی بندوبست ہے جو عوام کو فیصلہ سازی سے مزید دور لے جائے گا؟
بظاہر یہ قانون خوشنما الفاظ سے آراستہ ہے۔ اس میں کہا گیا ہے کہ گلگت بلتستان کی “مشترکہ تقسیم پذیر زمین” یعنی وہ زمین جو نہ کسی کی ذاتی ملکیت میں ہے اور نہ سرکار کے ریکارڈ میں، اب عوامی حق کے طور پر تقسیم کی جائے گی۔ یہ الفاظ عوام کے دل کو بھاتے ہیں، کیونکہ یہاں ہر شخص زمین سے جڑا ہوا ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیا واقعی یہ زمین اب عوام کے ہاتھوں میں جائے گی، یا یہ قانون بھی دیگر قوانین کی طرح فائلوں اور افسروں کے ہاتھوں میں سمٹ جائے گا؟
یہ ایکٹ کہتا ہے کہ زمین کی تقسیم کے لیے دیہاتی تصدیقی کمیٹیاں، ضلعی بورڈز، اور مرکزی لینڈ اپورشنمنٹ بورڈ قائم کیے جائیں گے۔ ان اداروں کے اراکین میں سرکاری افسران، کمشنر، ڈپٹی کمشنر، اور بورڈ آف ریونیو کے نمائندے شامل ہوں گے۔ اگر غور سے دیکھا جائے تو یہ وہی طبقات ہیں جن کے دستخط کے بغیر گلگت بلتستان میں کوئی زمین خریدی یا بیچی نہیں جا سکتی۔ یعنی ایک طرف عوامی شمولیت کا نعرہ لگایا گیا ہے، مگر دوسری طرف فیصلہ کرنے کا اختیار مکمل طور پر بیوروکریسی کے ہاتھوں میں دے دیا گیا ہے۔ یہ تضاد ہی وہ اصل نکتہ ہے جو اس قانون کو مشکوک بنا دیتا ہے۔
قانون کہتا ہے کہ “زمین عوام کی ہے”، مگر اسی قانون میں یہ بھی لکھا ہے کہ حتمی فیصلہ کمشنر کرے گا، نوٹیفکیشن کلیکٹر جاری کرے گا، اعتراضات کا فیصلہ بورڈ آف ریونیو کرے گا، اور نظر ثانی کی درخواست بھی انہی کے سامنے پیش ہوگی۔ سوال یہ ہے کہ جب فیصلہ، پیمائش، تصدیق اور منظوری سب کچھ ایک ہی نظام کے ہاتھ میں ہو، تو عوام کی شمولیت کہاں باقی رہتی ہے؟ یہ ایک ایسی حکمتِ عملی معلوم ہوتی ہے جو عوامی اعتماد کے نام پر انتظامی اختیار کو مزید مستحکم کرتی ہے۔
“حق دارانِ اراضی” کی تعریف اس قانون کا سب سے حساس پہلو ہے۔ اس کے مطابق وہ لوگ حق دار کہلائیں گے جن کے آباؤ اجداد اس زمین پر آباد رہے ہوں۔ بظاہر یہ اصول منصفانہ لگتا ہے، مگر گلگت بلتستان کے معاشرتی تناظر میں یہ بات کئی مشکلات پیدا کر سکتی ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ بہت سے خاندان اپنی آبائی بستیاں چھوڑ کر دوسری وادیوں میں جا بسے۔ کچھ کو قدرتی آفات نے مجبور کیا، کچھ کو روزگار نے نقل مکانی پر آمادہ کیا۔ اب اگر کسی شخص کے پاس پرانا دستاویزی ریکارڈ نہ ہو تو کیا وہ اپنی زمین سے محروم ہو جائے گا؟ کیا صدیوں سے کسی چراگاہ یا نالے کو آباد رکھنے والا محنت کش محض اس لیے غیر قانونی قابض کہلائے گا کہ اس کے پاس “کاغذ” نہیں ہے؟
یہ قانون زمینی حقیقت سے زیادہ کاغذی زبان میں لکھا گیا ہے۔ گلگت، غذر، ہنزہ، نگر اور دیامر کے علاقوں میں زمین کی نوعیت، زرخیزی، موسمی حالات اور سماجی ڈھانچے یکساں نہیں۔ کہیں چراگاہیں ہیں، کہیں پتھریلی وادیاں، کہیں ندی نالے اور برفیلے ڈھلوان۔ ایک ہی قاعدہ سب پر لاگو کر دینا نہ صرف غیر عملی ہے بلکہ تنازعات کو جنم دے سکتا ہے۔ مقامی روایات اور دیہاتی رواج صدیوں سے زمین کے استعمال کے ضابطے طے کرتے آئے ہیں، اب اگر ان روایات کو محض انتظامی قوانین کے تابع کر دیا گیا تو تصادم ناگزیر ہے۔
“دیہاتی تصدیقی کمیٹی” کو قانون میں عوامی نمائندگی کا نام دیا گیا ہے، مگر عملی طور پر یہ کمیٹیاں جلد ہی دیہاتی سیاست، خاندانی دباؤ اور برادری کی بنیاد پر اثر پذیر ہو سکتی ہیں۔ گاؤں کے چند بااثر افراد اگر فیصلہ کرنے کے مجاز ہوں کہ کون حق دار ہے اور کون نہیں، تو کمزور طبقہ کہاں جائے گا؟ بیوہ عورت، یتیم بچہ یا وہ مزدور جس نے نسلوں سے زمین کاٹی مگر اس کا نام ریکارڈ میں نہیں — ان کے لیے انصاف کہاں سے آئے گا؟ یہی خطرہ ہے کہ تصدیقی کمیٹیاں انصاف کی بجائے تعصب کی بنیاد پر فیصلے کرنے لگیں۔
حکومت کہتی ہے کہ اس قانون کا مقصد غیر قانونی قبضوں کا خاتمہ ہے۔ یہ بات جزوی طور پر درست ہے، مگر اس خطے میں “غیر قانونی قبضہ” کی تعریف خود واضح نہیں۔ کئی علاقے ایسے ہیں جہاں زمینوں کا کوئی باضابطہ ریکارڈ موجود ہی نہیں۔ وہاں زمینوں کی ملکیت ہمیشہ رواج اور اجتماعی فیصلوں سے طے ہوتی رہی ہے۔ اب جب وہی زمینیں کاغذی نظام میں لائی جائیں گی تو جن کے پاس الفاظ کا سہارا ہے وہ محفوظ رہیں گے، اور جن کے پاس صرف تاریخ ہے وہ محروم ٹھہریں گے۔
بیوروکریسی کی گرفت پہلے ہی گلگت بلتستان کے وسائل پر حاوی ہے، اب اگر زمین کی تقسیم بھی اسی کے ہاتھ میں دے دی گئی تو عوامی خودمختاری ایک خواب بن جائے گی۔ زمین کا مالک وہ نہیں ہوگا جو اسے آباد کرے، بلکہ وہ ہوگا جس کے پاس مہر اور دستخط کی طاقت ہوگی۔ یوں یہ قانون اصلاحات کی بجائے ایک نیا انتظامی جال بن جائے گا جس میں عوامی حقِ ملکیت محدود ہو جائے گا۔
ریاست کی نیت پر شک نہیں کیا جا سکتا، مگر سوال نیت کا نہیں بلکہ طریقہ کار کا ہے۔ اگر واقعی مقصد عوامی خوشحالی ہے تو اس کے لیے ضروری ہے کہ قانون کو محض دفتری زبان سے نکال کر عوامی زبان میں سمجھایا جائے۔ ہر گاؤں میں جرگے ہوں، مشاورت ہو، عوام کو حقِ رائے دہی دیا جائے کہ وہ اپنی زمین کی حدود اور ملکیت کی تصدیق خود کریں۔ خواتین، نوجوانوں، اور کمزور طبقوں کو کمیٹیوں میں نمائندگی دی جائے تاکہ فیصلہ چند ہاتھوں تک محدود نہ رہے۔
گلگت بلتستان میں زمین کا معاملہ محض معاشی نہیں بلکہ وجودی ہے۔ یہاں زمین ہی عزت ہے، زمین ہی امنگ ہے، اور زمین ہی مستقبل۔ اگر اس قانون کے نفاذ میں شفافیت، مساوات اور عوامی شمولیت برقرار رہی تو یہ خطہ ترقی کی نئی راہوں پر گامزن ہو سکتا ہے۔ مگر اگر یہ قانون بیوروکریسی کے طاقتور طبقات کے ہاتھوں کھیل بن گیا تو عوام کی زمین عوام سے چھن جائے گی۔
اس خطے کے لوگ اپنے پہاڑوں سے وفادار ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ ان کی زمین ان کے اختیار میں رہے، نہ کہ کسی غیر مرئی دستخط کے رحم و کرم پر۔ یہ وقت گلگت بلتستان کے عوام کے شعور کی آزمائش ہے۔ اگر وہ خاموش رہے تو آنے والے برسوں میں ان کی زمینیں “اصلاحات” کے نام پر دوسروں کے ہاتھ چلی جائیں گی، اور اگر وہ متحد ہو کر قانون کو سمجھنے، اس پر نظر رکھنے اور اس کے عمل درآمد میں شریک ہوئے تو یہی قانون ان کے حقوق کی ضمانت بن سکتا ہے۔
زمین کی تقسیم اصل میں اختیار کی تقسیم ہے۔ جس کے پاس اختیار ہے وہی زمین کا مالک ہے۔ یہ قانون چاہے کتنے ہی نیک ارادوں سے کیوں نہ بنا ہو، اگر عوام اس میں شامل نہ ہوئے تو یہ محض ایک انتظامی خاکہ رہ جائے گا۔ گلگت بلتستان کے لوگ اب فیصلہ کریں گے کہ وہ زمین کے مالک بننا چاہتے ہیں یا زمین کے فیصلوں کے تماشائی۔
زمین کبھی بے زبان نہیں ہوتی، وہ اپنے مالکوں کی وفاداری کو پہچانتی ہے۔ اگر اس قانون کے ذریعے عوام کو انصاف ملا، تو یہی زمین ترقی، خوشحالی اور استحکام کا پیغام بنے گی۔ مگر اگر یہ قانون طاقت کے نام پر نافذ ہوا تو یہی زمین محرومی کی نئی تاریخ لکھ دے گی۔
گلگت بلتستان کی مٹی آج پھر سوال کر رہی ہے
میں کس کی ہوں؟ عوام کی یا اختیار کی؟
یہ جواب اب ان ہاتھوں میں ہے جو اس زمین کو کاشت کرتے ہیں، اس پر بستے ہیں، اور جن کے خواب اسی خاک سے جنم لیتے ہیں۔
column in urdu, Overview of the Gilgit-Baltistan Land Reforms Act 2025
(تحریر: یاسر دانیال صابری)
کزن دوست شمائل عبداللہ، گوجرانوالہ




