One Man Show! ون مین شو، پروفیسر قیصر عباس
One Man Show! ون مین شو، پروفیسر قیصر عباس
بین الاقوامی تعلقات میں دوسری جنگ عظیم سے پہلے بین الاقوامی طاقتوں کے لئے” ملٹی پولر سسٹم”کی اصطلاح کا آغاز ہوا۔جب دوسری جنگ عظیم کا خاتمہ ہوا تو دو طاقت ور ملک ابھر کر سامنے آئے اور اس کے لئے “بائی پولر سسٹم” کا لفظ استعمال ہونا شروع ہو جسے ہم سرد جنگ (Cold War) کا دورانیہ بھی کہتے ہیں ۔جب USSR کی فیڈریشن کا خاتمہ ہوا تو دنیا ایک نئے نظام سے متعارف ہوئی جسے “New Worlds Order” کا نام دیا گیا اور اسی نظام کے تحت امریکہ بہادر نے پوری دنیا کی فیصلے کرنا شروع کئے اور اپنی چوہدراہٹ منوانا شروع کی ۔بعد میں جو کچھ ہوا وہ میرے سمیت بین الاقوامی تعلقات کے طالب علم اچھی طرح جانتے ہیں۔اگر اس منظر نامے کو پاکستان کو سامنے رکھ کر دیکھیں تو پاکستانی داخلی سیاست میں ہمیشہ ہر دور میں ایک ہی شخص کی اجارہ داری رہی ہے اور پورا نظام ایک ہی شخص کے گرد گھومتا رہا ہے جس طرح پوری دنیا کا نظام امریکہ کے گرد گھومتا ہے ۔بانی پاکستان کی رحلت کے بعد ملک کے پہلے وزیراعظم نواب زادہ لیاقت علی خان ایک مضبوط حکمران بن کر سامنے آئے اور کابینہ کے اختیارات برائے نام تھے یعنی “One Man Show” کا عملی مظاہرہ دیکھنے کو ملا ۔نواب صاحب نے بنگال سمیت باقی صوبوں میں اپنے چہیتے سیاست دانوں کو نوازا اور اس کا سب سے پہلا ردعمل یہ نکلا کہ وہ بنگالی جنہوں نے پاکستان بنانے کی قرارداد منظور کی تھی وہ ہی مسلم لیگ سے علیحدہ ہو گئے اور انہوں نے اپنی جماعتیں تشکیل دے دی جس کی بڑی مثال عوامی لیگ تھی ۔لیاقت علی خان کی رحلت کے بعد طاقت کا مرکز تیسرے گورنر جنرل ملک غلام ٹھہرے ۔پاکستان کی تقدیر کے فیصلے ایک فالج زدہ حکمران نے بڑی بے باکی سے کئے ۔ملک غلام محمد” One ManShow کی عملی تصویر بن کر سامنے آئے ۔ایک فوجی پس منظر رکھنے والے بیوروکریٹ سکندر مرزا جب اس ملک عزیز کے سیاہ سفید کے مالک بنے تو انہوں نے اپنی گورنری اور بعد میں صدارت بچانے کے لئے ایسی محلاتی سازشوں کا آغاز کیا کہ ایک رات میں سیاسی جماعت کا وجود سامنے آگیا وہ سیاست دان جو ظہرانے میں کسی اور پارٹی میں شرکت فرما رہے ہوتے تھے وہ عشائیہ میں کسی اور پارٹی میں شامل ہو چکے ہوتے تھے ۔یوں سکندر مرزا بھی One Man Show کا استعارہ بنے ۔جنرل ایوب خان اور جنرل یحیٰی خان کی بات کرنا ہی فضول ہے کیونکہ ملک کی تقدیر کا فیصلہ انہیں آمروں نے کیا اور ہم مشرقی پاکستان گنوا بیٹھے ۔مغربی پاکستان میں ذوالفقار علی بھٹو کو اقتدار ملا ۔1973 ء کا آئین نافذ ہوا مگر اپنے اقتدار کو مضبوط کرنے کے لئے بھٹو صاحب نے آئین میں ایسی ترامیم متعارف کروائیں کہ باظاہر پارلیمانی نظر آنے والے آئین کو عملاً صدارتی آئین میں تبدیل کر دیا ۔بھٹو صاحب یوں تو جمہوری لیڈر تھے مگر جب اقتدار ملا تو آمر ثابت ہوئے اور اپنی ہی پارٹی کے ان لیڈران کو تحتہ مشق بنایا جو کبھی اقتدار کے حصول کے لئے ان کے ساتھ تھے یوں بھٹو صاحب جب تک حکومت کرتے رہے ملک میں “One Man Show” ہی نظر آتا رہا ۔بھٹو صاحب منظر نامے سے غائب ہوئے تو اسلامی سوچ رکھنے والے جنرل ضیاء الحق نے اسلام کا نام استعمال کرتے ہوئے سب سےطویل ترین حکومت کی ۔بین الاقوامی سطح پر USSR کو نکیل ڈالنے کے لئے امریکہ نے پاکستان کے ذریعے طالبان کا استعمال کیا اس طرح چند سالوں تک امریکہ کو ضیاء الحق کی ضرورت رہی اور داخلی طور پر پاکستان میں طاقت کا سر چشمہ ضیاء الحق بنے رہے ۔محترمہ بے نظیر بھٹو دو دفعہ اقتدار میں آئی اور اپنی ہی پارٹی کے اصولوں کو پس پشت ڈال کر اسٹبلشمنٹ کے ساتھ ہاتھ ملایا اور اقتدار حاصل کیا اور اگر پارٹی میں سے کسی نے اختلاف کا اظہار کیا تو اسے پارٹی سے نکال باہر کیا گیا ۔میاں نواز شریف تین دفعہ اس ملک کی تقدیر کے مالک بنے میاں صاحب نے تو باقاعدہ” خلافت” قائم کرکے” امیر المومنین” بننے کی بھی کوشش کی اور ہر آرمی چیف کے ساتھ لڑائی کی ۔پارٹی کے اندر جس نے میاں صاحب سے اختلاف کیا وہ نشان عبرت بنا ۔بلکہ سال ہا سال ساتھ چلنے والے گجرات کے چوہدریوں کو وزارت اعلیٰ کا جھانسہ دیا مگر بعد میں صوبائی اسمبلی کی سپیکر شپ کا “لالی پاپ” دےکر ٹرخا دیا اور وزارت اعلیٰ کا منصب اپنے برادر صغیر کو سونپ دیا ۔جنرل مشرف صاحب تشریف لائے اور ملک میں جمہوریت کو پروان چڑھانے کے لئے اپنی پارٹی لانچ کی مگر اپنے ہی بنائے گئے وزیراعظم ظفر اللہ خان جمالی کو زیادہ دیر برداشت نہ کر سکے آخر میں ان کی نظر شوکت عزیز پر ٹھہری ۔ظاہری طور پر تو شوکت عزیز اس ملک کے وزیراعظم تھے مگر اختیارات کا مرکز جنرل پرویز مشرف تھے ۔مشرف صاحب کی آمریت کا خاتمہ ہوا اور بے نظیربھٹو کی شہادت کے بعد ایک پرانا سیاسی چہرہ نئے روپ میں منظر نامے پہ طلوع ہوا جی ہاں! آصف علی زرداری ۔ملتان کی سادات فیملی کے چشم وچراغ سید یوسف رضا گیلانی وزیراعظم بنے مگر اختیارات عملاً زرادی صاحب کے پاس رہے ۔یوسف رضآ گیلانی کے پاس اتنا اخیتار ضرور تھا کہ اگر کسی دوست ملک کی طرف سے کوئی تحفہ “ہار” کی صورت میں ان کی اہلیہ کو ملتا تو وہ توشہ خانہ میں جمع کروانے کی بجائے گھر لے جاتے ۔2018ء میں عمران خان مسند اقتدار پر بیٹھے اور اپنے ان تمام احباب کو ایک ایک کرکے راستے سے ہٹانے لگے سب سے پہلے عون چوہدری کی باری آئی جسے مرکز سے پنجاب میں بھیج دیا گیا ۔اس کے بعد پرویز خٹک جو 2013ء سے 2018 تک کے پی کے کے وزیرِ اعلی رہ چکے تھے ٫کو پشاور سے اٹھا کر مرکز میں ایک “ہومیو پیتھک” وزارت دے دی ۔یوں پرویز خٹک وزیر دفاع بنا دئے گئے اور کے پی کے کو ایک غیر معروف چہرے محمود خان کے سپرد کر دیا گیا۔ پنجاب میں علیم خان اور جہانگیر ترین کو قابو کرنے کے لئے عثمان بزدار جیسا ہیرا تلاش کیا گیا تاکہ مرکز میں بیٹھ کر پنجاب کو کنٹرول کیا جا سکے ۔جہانگیر ترین کو صادق اور امین کے کیس میں نااہل کروا کے میاں صاحب کی نااہلی کو حق بجانب قرار دلوایا گیا ۔اب خان صاحب اڈیالہ جیل میں ہیں اور وہ جیل سے پارٹی کے معاملات دیکھ رہے ہیں ۔چند دن پہلے انہوں نے علی امین گنڈا پور کو پی ٹی آئی کی صوبائی صدارت سے ہٹا کر جنید اکبر کو خیبر پختونخوا کا صوبائی صدر بنا دیا ہے یعنی خان صاحب علی امین کو بھی اتنا طاقتور نہیں ہونے دینا چاہتے کہ کل کو وہ خان صاحب کے سامنے کھڑے ہو جائیں ۔مطلب علی امین کو یہ احساس کروانا مقصود ہے کہ پارٹی پر گرفت صرف عمران خان کی ہے اور وہ جب چاہے آپ کو راستے سے ہٹا کر وزارت اعلیٰ کی ذمہ داری کسی اور صاحب کو بھی دے سکتے ہیں۔دوسرے لفظوں میں یہ کہا جائے تو زیادہ مناسب ہو گا کہ ظاہری طور پر جمہوریت کا راگ الاپنے والی پارٹی پر بھی فرد واحد کا اختیار ہے اور عملاً یہاں بھی “One Man Show” ہی چل رہا ہے ۔ One Man Show! ون مین شو، پروفیسر قیصر عباس
پروفیسر قیصر عباس!
column in urdu one man show
سرکاری سکولوں کے تعلیمی نتائج اور زوال کے اسباب، محمد صابر شگری
اراکین پارلیمنٹ کی تنخواہوں اور مراعات اضافہ، امیر اور غریب میں فرق، یاسر دانیال صابری