سرکاری سکولوں کے تعلیمی نتائج اور زوال کے اسباب، محمد صابر شگری
سرکاری سکولوں کے تعلیمی نتائج اور زوال کے اسباب، محمد صابر شگری
تعلیم کسی بھی قوم کی ترقی میں بنیادی کردار ادا کرتی ہے، لیکن بدقسمتی سے ہمارے سرکاری سکولوں کے نتائج روز بروز خراب ہوتے جا رہے ہیں۔ اس صورتحال کے پیچھے کئی عوامل کارفرما ہیں، جنہیں سمجھنا اور حل تلاش کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ ہم کسی ایک طبقے کو مکمل طور پر موردِ الزام نہیں ٹھہرا سکتے، بلکہ مختلف سطحوں پر موجود مسائل کو تسلیم کر کے ان کے حل کی کوشش کرنی چاہیے۔
1- اساتذہ کی غفلت
اساتذہ کسی بھی تعلیمی نظام کی ریڑھ کی ہڈی ہوتے ہیں۔ اگر وہ اپنی ذمہ داریوں کو پوری دیانت داری سے ادا نہ کریں، کلاسز میں دلچسپی نہ لیں اور تدریسی عمل کو رسمی کارروائی بنا دیں، تو اس کے نتیجے میں طلبہ کی تعلیمی کارکردگی متاثر ہوتی ہے۔ کچھ اساتذہ اپنی ملازمت کو محض ایک ذریعہ معاش سمجھتے ہیں اور طلبہ کی ذہنی نشوونما پر کم توجہ دیتے ہیں۔
2- والدین کی عدم توجہی
والدین کی ذمہ داری صرف بچوں کو سکول بھیجنا نہیں بلکہ ان کی تعلیمی سرگرمیوں پر مسلسل نظر رکھنا بھی ہے۔ اکثر والدین بچوں کے تعلیمی مسائل سے لاپرواہ ہوتے ہیں اور ان کی پڑھائی کے حوالے سے سنجیدگی نہیں دکھاتے، جس کا اثر بچوں کی کارکردگی پر پڑتا ہے۔
3- ذہین بچوں کو پرائیویٹ سکول بھیجنا اور کمزور طلبہ کو سرکاری سکولوں میں چھوڑ دینا
ایک بڑا مسئلہ یہ بھی ہے کہ والدین ذہین اور محنتی بچوں کو مہنگے نجی سکولوں میں بھیجتے ہیں، جہاں انہیں معیاری تعلیم ملتی ہے، جبکہ کمزور طلبہ کو سرکاری سکولوں میں چھوڑ دیا جاتا ہے، جس کی وجہ سے سرکاری سکولوں کے نتائج مزید خراب ہوتے ہیں۔
4- محکمہ تعلیم میں غیر ضروری سیاسی مداخلت
تعلیم کے شعبے میں سیاسی مداخلت کے سبب تعلیمی معیار متاثر ہوتا ہے۔ سفارشی بنیادوں پر اساتذہ کی بھرتی، تبادلے اور ترقی جیسے عوامل تعلیمی نظام کو کمزور کر رہے ہیں۔ اگر یہ مداخلت ختم نہ کی گئی تو تعلیمی اداروں کی کارکردگی بہتر بنانا مشکل ہوگا۔
5- پرائمری تعلیم کو نظر انداز کرنا
کسی بھی تعلیمی نظام کی بنیاد پرائمری ایجوکیشن ہوتی ہے۔ اگر بنیاد مضبوط نہ ہو تو آگے جا کر تعلیمی معیار بہتر نہیں ہو سکتا۔ بدقسمتی سے ہمارے تعلیمی نظام میں پرائمری تعلیم کو نظر انداز کیا جا رہا ہے، جس کے اثرات ہائی سکولز اور کالجز تک دیکھے جا سکتے ہیں۔
6- اچانک سلیبس میں بڑی تبدیلیاں
نصاب میں تبدیلی ضروری ہوتی ہے، لیکن اگر یہ بغیر کسی مناسب حکمتِ عملی اور اساتذہ کی تربیت کے کی جائے تو یہ بچوں اور اساتذہ دونوں کے لیے مشکلات پیدا کرتی ہے۔ نصاب میں اچانک تبدیلیاں طلبہ کو ذہنی دباؤ میں ڈال دیتی ہیں اور تعلیمی معیار پر منفی اثر ڈالتی ہیں۔
7- غیر معیاری اور غیر منظور شدہ سکولوں کا قیام
بغیر کسی پلاننگ اور بنیادی سہولیات کے کئی سکول قائم کیے جا رہے ہیں، جہاں نہ تو معیاری اساتذہ دستیاب ہوتے ہیں اور نہ ہی مناسب تعلیمی سہولیات۔ ان اپروٹ سکولوں کی موجودگی تعلیمی نظام کی خرابی کا ایک اہم سبب ہے۔
8- ہیڈ ٹیچرز اور پرنسپلز کے پاس اختیارات کا نہ ہونا
ادارے کے سربراہ کے پاس جب انتظامی اختیارات نہ ہوں تو وہ تعلیمی نظام کو بہتر بنانے میں مؤثر کردار ادا نہیں کر سکتا۔ سرکاری سکولوں میں پرنسپلز اور ہیڈ ٹیچرز کو اکثر صرف نمائشی عہدے دے دیے جاتے ہیں، جبکہ عملی طور پر ان کے ہاتھ بندھے ہوتے ہیں۔ جب تک انہیں بااختیار نہیں بنایا جاتا، تعلیمی معیار میں بہتری ممکن نہیں۔
حل اور تجاویز
1. اساتذہ کی تربیت اور ان کی کارکردگی کو جانچنے کے لیے ایک مؤثر نظام بنایا جائے۔
2. والدین کو بچوں کی تعلیم میں شامل کرنے کے لیے شعور بیدار کیا جائے۔
3. سرکاری سکولوں کا معیار بلند کیا جائے تاکہ والدین اپنے ذہین بچوں کو بھی وہاں تعلیم دلوائیں۔
4. محکمہ تعلیم کو سیاسی مداخلت سے پاک کیا جائے اور تعلیمی فیصلے میرٹ پر کیے جائیں۔
5. پرائمری تعلیم کے معیار کو بہتر بنانے کے لیے جدید تدریسی طریقے اپنائے جائیں۔
6. نصاب میں تبدیلیاں اساتذہ کی مشاورت سے کی جائیں اور اس کے مطابق
column in urdu, Educational results of government schools
دن بھر کی اہم خبروں کی لنک ملاحظہ فرمائیں
گلتری ،پریمیئر لیگ کا کامیاب آغاز، نوجوانوں کی محنت اور جذبے کا مظہر، قاسم زار
اراکین پارلیمنٹ کی تنخواہوں اور مراعات اضافہ، امیر اور غریب میں فرق، یاسر دانیال صابری
گلگت بلتستان کی تہذیب و ثقافت۔ کبریٰ بتول