نسالو فیسٹول اور پاکستان ، یاسر دانیال صابری
نسالو فیسٹول پاکستان کے علاقے گلگت بلتستان میں قدیم زمانے سے چلتا آرہا ہے وقت کے ساتھ اس میں بھی تبدیلی آئی کہ ایک قدیم اور معنی خیز رسم ہے، مگر وقت کے ساتھ ساتھ اس کی روح کہیں گم ہوتی جا رہی ہے۔ ایک زمانہ تھا جب نسالو سردیوں سے بچاؤ، باہمی تعاون اور سماجی مساوات کی علامت ہوا کرتا تھا، لیکن آہستہ آہستہ یہ رسم بھی طبقاتی فرق کی نذر ہوتی چلی گئی۔ امیر طبقے کے گھروں میں نسالو گوشت ہی گوشت بن جاتا تھا، جبکہ غریب طبقے کے گھروں میں سبزی یا محض نام کی رسم رہ جاتی۔ یہی منظر گاؤں کی سطح پر بھی غریب لوگوں کے لیے حیرانی اور پریشانی کا باعث بن جاتا۔ چھوٹے بچے جب دوسروں کے گھروں میں گوشت دیکھتے تو اپنے بابا جی سے ضد کرتے کہ ہمیں بھی گوشت لا دو۔ اس لمحے ایک غریب باپ کی آنکھوں میں آنسو ہوتے، وہ خود کچھ نہیں کہتا مگر اس کا دل ٹوٹ جاتا اور گھر کا ماحول خاموش اذیت میں ڈوب جاتا۔
کچھ گاؤں کے احساس مند لوگ اس محرومی کو محسوس کرتے اور بچوں کو مفت میں گوشت دے دیتے تھے۔ وہ باپ خود نہیں کھاتا، بس اپنے بچوں کو کھلاتا اور دل ہی دل میں شکر ادا کرتا۔ یہ سلسلے برسوں سے چلے آ رہے ہیں اور یہی اس معاشرے کی اصل خوبصورتی بھی تھی، جہاں درد کو سمجھنے والے دل موجود تھے۔
بگروٹ سائیڈ پر نسالو کا ایک اور خوبصورت پہلو بھی رہا ہے، جہاں اگر کسی کے پاس گوشت نہ ہوتا تو وہ سیب، ناشپاتی، تھوڑا سا گھی یا اخروٹ بنا کر مہمانوں کے لیے لاتا۔ اس عمل نے امیر اور غریب کے درمیان فرق کو کسی حد تک کم کر دیا۔ مساوات اور برابری کا ایک خاموش پیغام تھا، کہ نیت اور شراکت اہم ہے، مقدار نہیں۔ مگر سچ یہی ہے کہ اس دنیا میں غربت ایک بہت بڑی تکلیف کا نام ہے، جو انسان کی خوشیوں کو بھی شرمندہ کر دیتی ہے۔
ہمارے گاؤں کھلتارو میں نسالو کا فیسٹیول آج بھی کسی حد تک جاری ہے۔ نسالو کے لیے یاک، بیل یا گائے کی قربانی دی جاتی، اور بچوں کے حساب سے من دو من گوشت تقسیم کیا جاتا، یا پھر اس کے مالک کو پیسے دے کر اس میں شریک ہو جاتے تاکہ سب کو گوشت مل سکے۔ یہ رسم دراصل سردی کی شدت سے بچنے کے لیے نکالی گئی تھی، تاکہ چربی والا اچھا گوشت کھا کر خود کو اور بچوں کو جنوری کی سخت سردی سے محفوظ رکھا جا سکے۔
جب سارے نسالو کر لیتے تو شام کے وقت محلے کے ایک ایک فرد کو جمع کر کے ہر گھر دعوت دیتا، تاکہ محروموں کے لیے خیرات اور صدقہ بھی ہو جائے۔ یہ دن واقعی ایک اچھا دن ہوتا تھا۔ اس وقت برف باری ہوتی تھی، برف فٹوں کے حساب سے گرتی، راستے بند ہو جاتے۔ صبح برف کے درمیان زندگی پھر سے جاگتی اور لوگ سردی کے ساتھ مسکرا کر جینا سیکھتے تھے۔
مگر یہ خوبصورت رسم آہستہ آہستہ ختم ہوتی جا رہی ہے۔ اس کے بعد ایک اور روایت شروع ہوتی تھی جسے “شاپ” کہا جاتا ہے۔ یہ مقامی شناء زبان میں دعائیہ کلمات پر مشتمل ایک رسم تھی، جس میں گاؤں کے لڑکے اکٹھے ہو کر ہر گھر سے مانگتے، کوئی پیسے دیتا، کوئی آٹا، کوئی گوشت۔ شام کے وقت اس شدید ٹھنڈ میں سارا گوشت ایک جگہ جمع کیا جاتا اور وہی نوجوان مل بیٹھ کر کھاتے۔ یہ ایک الفت بھرا معاشرہ تھا، جہاں کوئی تنہا نہیں ہوتا تھا۔
وہ بغیر موبائل، بغیر سروس کا معاشرہ تھا، جہاں وقت لوک کہانیوں، مال مویشیوں کے قصوں، بزرگوں کی باتوں اور برفیلے دنوں کی خاموشیوں میں گزر جاتا تھا۔ شاید سہولتیں کم تھیں، مگر دل مطمئن تھے، رشتے مضبوط تھے اور رسمیں انسان کو انسان کے قریب لے آتی تھیں۔
آج جب ہم پیچھے مڑ کر دیکھتے ہیں تو احساس ہوتا ہے کہ نسالو صرف گوشت کا نام نہیں تھا، بلکہ یہ باہمی ہمدردی، مساوات اور اجتماعی زندگی کی علامت تھا، جو اب یادوں کی دھند میں گم ہوتا جا رہا ہے۔
column in urdu, Nassalo Festival and Pakistan
کراچی میں چینی کی قیمت میں 50 روپے کی بڑی کمی، جلد 100 روپے فی کلو تک گرنے کا امکان
یہ ایک ناقابلِ تردید حقیقت ہے کہ ملتِ تشیع میں نہ کوئی دہشت گرد تنظیم موجود ہے




