column in urdu, Modern Era and People’s Busy Lives 0

عہدِ حاضر اور لوگوں کی مصروفیت، آمینہ یونس بلتستانی
زمانہ بدل چکا ہے اور وقت کی رفتار تیز ہو گئی ہے۔ ہر چیز میں جدید ٹیکنالوجی سرایت کر چکی ہے، ہر کام اب ٹیکنالوجی کے ذریعے انجام دیا جا رہا ہے، حتیٰ کہ آٹا تک مشین گوندھتی ہے۔ اس کے باوجود انسان مصروفیت کا رونا روتا نظر آتا ہے۔ انسان کے پاس انسان کے لیے وقت، محبت اور پیار بہت کم رہ گیا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ سب نے گھڑ دوڑ میں حصہ لیا ہے، جیت کے لیے سب کوشاں ہیں۔ پیچھے مڑ کر یا ایک دوسرے کی طرف دیکھنے سے ڈر لگتا ہے کہ کہیں وقت کی اس دوڑ میں پیچھے نہ رہ جائیں، اسی لیے بغیر رکے بس دوڑے جا رہے ہیں۔ جتنا انسان دوڑتا ہے، اتنا ہی منزل دو قدم پیچھے چلی جاتی ہے۔
اس دوڑ میں سب سے زیادہ نقصان بچوں، بوڑھوں اور رشتوں کا ہوتا ہے اور رہی سہی کسر انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا پوری کر دیتا ہے۔ جدید دور میں انسان نے انسانی رشتوں سے ناطہ کم کر دیا ہے۔ پرانے وقتوں کی سادگی کو چھوڑ دیا ہے۔ ایک دوسرے کے گھروں میں جانا وقت کا ضیاع لگتا ہے، محبت سے رشتہ داریاں نبھانا ڈھکوسلا محسوس ہوتا ہے۔ سادہ کھانا کھانے کو غربت کی علامت سمجھا جانے لگا ہے، سادہ لباس پہننے والوں کو کم حیثیت گردانا جاتا ہے۔ جدید دور کی سب سے پسندیدہ اور قابلِ قدر چیز صرف اور صرف پیسہ بن چکی ہے۔ اب انسان کی سوچ غریب ہو گئی ہے، مگر گھروں میں موجود لباس، کھانے پینے اور رہن سہن کا انداز امیر ہو گیا ہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ ایک دوسرے کی دیکھا دیکھی اور زندگی میں صرف ایک ہی چیز کو مقصد بنانا ہے، یعنی پیسہ۔
جس کے پاس پیسہ ہے، چاہے اس میں خوبصورت کردار نہ ہو، اچھی سوچ نہ ہو، اللہ کو یاد کرے یا نہ کرے، اخلاص کی بو تک اس کے پاس نہ ہو، تب بھی وہ معاشرے میں عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ اور ایسی عزت حاصل کرنے کے لیے لوگوں نے اپنی اقدار، رشتے، محبت اور سکون سب کچھ داؤ پر لگا دیا ہے
رہی سہی کسر سوشل میڈیا نے پوری کر دی ہے۔ جو وقت بچتا ہے، وہ اس کی نذر ہو جاتا ہے۔ بڑوں سے لے کر چھوٹے بچوں تک کسی کو کسی کی خبر نہیں ہوتی۔ ساتھ بیٹھے لوگ بھی کوسوں دور محسوس ہوتے ہیں۔ اس سے رشتوں میں دراڑیں پڑ چکی ہیں، ایک ہی گھر میں رہنے والے اجنبی بن کر رہ گئے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ جدیدیت نے حساس دل رکھنے والے انسانوں کو بے حس مشین بنا دیا ہے۔ دوسری طرف مہنگائی نے لوگوں کی معصومیت بھی چھین لی ہے۔ اب مرد اور عورت دونوں گھروں سے باہر نکل کر روزگار کی تلاش میں سرگرداں ہیں، اور بچے جھولے میں ہی یتیم ہو جاتے ہیں، ماں باپ کے ہوتے ہوئے بھی ان کو نہ ماں کی گود کی گرمی میسر ہوتی ہے، نہ باپ کی شفقت۔
جب ماں باپ محنت کر کے بچوں کی اچھی تعلیم و تربیت کا بندوبست کرتے ہیں، تب تک والدین اور بچوں کے درمیان آہستہ آہستہ اجنبیت سرایت کر چکی ہوتی ہے۔ پھر والدین کو شکایت ہونے لگتی ہے کہ بچے انہیں وقت نہیں دیتے، ان کی بات نہیں مانتے، ان سے محبت نہیں کرتے۔ لیکن وہ یہ نہیں سمجھتے کہ یہ تو مکافاتِ عمل ہے۔ جن بچوں کو انہوں نے جھولے میں تنہا چھوڑ دیا تھا، وہی بچے انہیں بڑھاپے میں تنہا چھوڑ دیتے ہیں۔
انسان کو ضرورت ہے کہ وہ اپنی ترجیحات کا ازسرِ نو تعین کرے۔ سب سے پہلے انسان کو، رشتوں کو، گھر کو اور اللہ کو اہمیت دے، اور باقی سب چیزوں کو زندگی کا حصہ سمجھے، نہ کہ زندگی کا مقصد۔

Thank you for reading this post, don't forget to subscribe!

column in urdu, Modern Era and People’s Busy Lives

مکافات عمل: کائنات کا اٹل انصاف , پارس کیانی ساہیوال، پاکستان

جرمِ سیاست کا عہد تمام ہوا، میاں منظور احمد وٹو مرحوم کی یاد میں، شبیر احمد شگری

شگر میں عام انتخابات 2026 کے پیشِ نظر سیاسی سرگرمیوں میں واضح تیزی

50% LikesVS
50% Dislikes

عہدِ حاضر اور لوگوں کی مصروفیت، آمینہ یونس بلتستانی

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں