column in urdu, Mishal's case 0

بیٹیاں آخری آپشن نہیں ہوتیں ڈاکٹر مشعل کا مقدمہ اور معاشرے کی حقیقت ، امتیاز گلاب بگورو
ڈاکٹر مشعل کریم کی پراسرار گمشدگی اور اس کے بعد سامنے آنے والی اندوہناک تفصیلات نے ہر حساس دل کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔ یہ واقعہ محض ایک ذاتی المیہ نہیں، بلکہ ہمارے پورے سماجی ڈھانچے، تربیت کے انداز، اور بیٹیوں سے جڑے روایتی تصورات پر ایک خوں رنگ سوالیہ نشان ہے۔
مشعل صرف ایک خاتون نہیں تھی، وہ ایک ڈاکٹر تھی، ایک پڑھی لکھی، خودمختار، باصلاحیت اور باوقار بیٹی جو اس معاشرے میں مثبت کردار ادا کرنے کی مکمل اہلیت رکھتی تھی۔ مگر شاید ہم نے اس کی اہلیت سے زیادہ، اس کی صنف کو دیکھا۔ شاید اسی لیے وہ بھی اُن بیٹیوں کی صف میں جا کھڑی ہوئی جو اپنے ہی تحفظ کے دائرے میں غیرمحفوظ ٹھہریں۔
ہمارے معاشرے میں بیٹیوں کو رخصت کرتے وقت اکثر ایک جملہ دہرا دیا جاتا ہے “اب یہی تمہارا گھر ہے، وہیں جینا مرنا ہے۔”یہ جملہ ہمارے لیے روایتی ہوسکتا ہے، مگر ایک بیٹی کے لیے یہ ایک غیر اعلانیہ جلاوطنی کا آغاز ہوتا ہے ایک ایسا سماجی دباؤ جو اسے ہر حال میں “نبھانے” پر مجبور کرتا ہے، چاہے اس کی عزت روند دی جائے، چاہے اس کا وجود مٹی میں ملا دیا جائے۔
ہماری بیٹیاں اپنے ماں باپ کی عزت کے بوجھ تلے دب کر اکثر خاموش رہتی ہیں۔بہت سی مشعلیں اس خاموشی میں بجھ جاتی ہیں اور اکثر، ان کے والدین کو ان کی اذیتوں کا علم اس وقت ہوتا ہے، جب کفن ان کی بےزبان گواہی بن جاتا ہے۔ہم نے بیٹیوں کو بچپن سے ہی یہ سکھایا ہے کہ زبان بند رکھو، تو مہذب کہلاؤ گی سوال نہ کرو، تو باادب مانی جاؤ گی،دکھ چھپاؤ، تو صابرہ قرار پاؤ گی،کیا یہ تربیت واقعی تحفظ دیتی ہے؟یا ہم ان کے ہاتھوں سے احتجاج، انتخاب اور انکار کے حق چھین رہے ہیں؟ہم نے بیٹی کو ایک قابلِ احترام انسان کے بجائے، خاندان کی “عزت” کا استعارہ بنا دیا ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ اگر وہ اپنے حق کے لیے آواز اٹھائے، ظلم کے خلاف کھڑی ہو، یا واپسی کی بات کرے تو سارا معاشرہ اس پر سوال اٹھاتا ہے۔یہی وہ لمحہ ہے جب ایک بیٹی خود کو تنہا محسوس کرتی ہے، اور وہی تنہائی اُسے ایسے فیصلوں کی جانب دھکیل دیتی ہے جو ناقابلِ تلافی ہوتے ہیں۔
قارئین کرام بیٹی کی
واپسی کو شرمندگی نہیں، حق بنائیں بیٹی کی شادی ایک ذمہ داری ہے، صرف خوشی نہیں۔
اور اس ذمہ داری کا سب سے اہم حصہ یہ ہے کہ بیٹی کو یہ یقین دلایا جائے کہ اگر وہ عزت سے محروم کی جائے، تو واپسی کا دروازہ ہمیشہ کھلا ہے۔
یہی جملہ جو آج ہم رخصتی پر کہتے ہیں”اب یہی تمہارا گھر ہے”اسے بدلنے کی ضرورت ہے:
تم جہاں بھی رہو، ماں باپ کاگھر تمہاری پناہ ہے، اور تمہارا حق ہے۔بیٹی کو صرف رخصت نہ کریں، اسے اعتماد دے کر روانہ کریں۔ اسے یہ سکھائیں کہ وہ انسان ہے، کوئی سماجی مجسمہ نہیں جسے ٹوٹنے سے پہلے بھی سجدہ کیا جائے، اور ٹوٹنے کے بعد بھی۔اگر ہم واقعی بیٹیوں سے محبت کرتے ہیں، تو یہ محبت صرف جہیز، لباس، یا رخصتی کے آنسوؤں تک محدود نہ ہو۔
یہ محبت اس دن بھی زندہ رہے جب وہ خوفزدہ ہو، زخمی ہو، یا محض سنا جائے جانا چاہتی ہو۔ہمیں ایسی تربیت کرنی ہوگی کہ بیٹی کو سکھایا جائے،عزت مانگنا نہیں، لینا ہےمحبت صرف جھیلنے کا نام نہیں، تحفظ اور برابری کا تقاضا بھی ہےظلم کے سامنے خاموشی صبر نہیں، بلکہ خود پر ظلم ہے قارئین کرام
اطلاعات کے مطابق ڈاکٹر مشعل کریم اب ہمارے بیچ نہیں مگر اس کا سوال باقی ہے۔اور وہ سوال ہم سب سے یہ پوچھ رہا ہے،کیا تم اگلی مشعل کو بچا سکو گے؟
کیا تم اپنی بیٹی کو اتنا مضبوط بنا پاؤ گے کہ وہ خود کو بےآواز نہ سمجھے؟
کیا تم اسے یہ یقین دلا پاؤ گے کہ اس کا اصل گھر، اس کی پناہ گاہ تم ہو؟اگر ہم اس سوال کا جواب آج نہیں دے پائے، تو کل کو ایک اور مشعل، ایک اور بیٹی، ایک اور درد ہماری بے حسی کا شکار بن جائے گی۔
محترم قارئین کرام بیٹیاں “آخری آپشن” نہیں ہوتیں۔وہ جیتے جاگتے، سوچتے سمجھتے انسان ہیں جنہیں عزت، محبت اور تحفظ کی اسی طرح ضرورت ہے جیسے بیٹوں کواب وقت آ چکا ہے کہ ہم رخصتی کے رسم و رواج سے آگے نکلیں اور بیٹیوں کو یہ سکھائیں کہ ان کی جان، ان کی عزت، اور ان کا وقار کسی بھی رشتے سے بڑا ہے۔مشعل کا چراغ بجھ گیا، مگر اس کی روشنی ہمیں یہ سکھا گئی کہ بیٹی صرف “نبھانے” کے لیے نہیں آتی، وہ جینے کے لیے آتی ہے۔ اور اگر ہم نے یہ نہ سیکھا، تو ہر بیٹی ہمارے معاشرے کی عدالت میں ایک سوال بن کر کھڑی رہے گی۔
column in urdu, Mishal’s case

50% LikesVS
50% Dislikes

بیٹیاں آخری آپشن نہیں ہوتیں ڈاکٹر مشعل کا مقدمہ اور معاشرے کی حقیقت ، امتیاز گلاب بگورو

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں