column in urdu, Memory of the Late Mian Manzoor Ahmed Wattoo 0

جرمِ سیاست کا عہد تمام ہوا، میاں منظور احمد وٹو مرحوم کی یاد میں، شبیر احمد شگری
سیاست کے ایوانوں میں گونجنے والی ایک توانا آواز خاموش ہو گئی۔ میاں منظور احمد وٹو کے انتقال کی خبر ایک بجلی بن کر گری۔ جب ان کے سیکرٹری کا پیغام موصول ہوا کہ وٹو صاحب اب ہم میں نہیں رہے ، تو بے اختیار زبان سے “اِنَّا ِللّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْن” جاری ہو گیا۔ اس خبر نے دل کو غم کی گہرائیوں میں اتار دیا اور مجھے شدت سے فیض احمد فیض کے وہ اشعار یاد آگئے جو وٹو صاحب نے اپنی شہرہ آفاق کتاب “جرمِ سیاست” کے آغاز میں رقم کیے تھے :
متاع لوح و قلم چھن گئی تو کیا غم ہے کہ خونِ دل میں ڈبولی ہیں انگلیاں میں نے
زباں پہ مہر لگی ہے تو کیا کہ رکھ دی ہے ہر ایک حلقہ زنجیر میں زباں میں نے
کچھ عرصے سے وٹو صاحب بھی علیل تھے اور میں بھی صاحبِ فراش تھا، مگر قدرت نے ہمیں ایک آخری ملاقات کا موقع فراہم کیا۔ چند روز قبل ہونے والی وہ ملاقات اب ایک یادگار اور الوداعی نشست بن چکی ہے ۔ ہم نے طویل وقت اکٹھے گزارا۔ اس نشست میں گورنر گلگت بلتستان سید مہدی شاہ صاحب)جو ان دنوں خود بھی بیمار تھے (کا ذکر بھی خیر و عافیت کے حوالے سے ہوا۔یعنی تینوں بیماران ایک دوسرے کی بیمار پرسی کرتے رہے۔اور وٹو صاحب اور میں نے مہدی شاہ صاحب کی خیریت فون پر دریافت کی۔ مہدی شاہ صاحب نے وٹو صاحب کو سکردو کے دورے کی دعوت دی تھی اور ہم دونوں نے سکردو جانے کا پروگرام بھی ترتیب دیا تھا، مگر افسوس کہ زندگی نے وفا نہ کی اور وہ وعدہ ادھورا رہ گیا۔
اس آخری ملاقات میں انہوں نے میرے لیے ایک انٹرویو ریکارڈ کروایا جس میں میری ادنیٰ خدمات کے بارے میں تعریفوں کے پل باندھ دیے ۔ یہ ان کی وسعتِ قلبی اور شفقت تھی کہ وہ مجھ ناچیز کو اتنا وقت اور اہمیت دیتے تھے ۔ بلاشبہ وہاں دیگر اہم مہمان بھی موجود ہوتے ، لیکن وہ سب کو رخصت کرنے کے بعد مجھے ایک الگ کمرے میں لے جاتے اور گھنٹوں پر محیط خصوصی نشست کا اہتمام کرتے ۔ پر تکلف چائے اور لوازمات کے ساتھ ہونے والی ان گفتگوؤں نے مجھ پر یہ راز کھولا کہ بظاہر بارعب اور سخت نظر آنے والی شخصیت اندر سے کس قدر ملنسار، شفیق اور مہمان نواز ہو سکتی ہے ۔
منظور وٹو مرحوم اور میری قربت کا ایک اہم حوالہ برادر اسلامی ملک ایران بھی تھا۔ وہ ایران کے انقلاب اور قیادت سے گہرا لگاؤ رکھتے تھے ۔ جب ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای پاکستان کے دورے پر لاہور تشریف لائے تو وٹو صاحب پنجاب اسمبلی کے اسپیکر تھے اور ان کی سپریم لیڈر سے خصوصی ملاقات ہوئی۔ اس یادگار ملاقات کی تصاویر انہوں نے اپنے کمرے میں نہایت عقیدت سے آویزاں کر رکھی تھیں۔ پاک ایران دوستی کو مضبوط بنانے کے لیے ہم نے لاہور میں ایرانی قونصلیٹ کے اشتراک سے “پاک ایران فرینڈشپ” کی بنیاد رکھی، جس کے وہ چیئرمین اور میں صدر بنا۔ ایرانی قونصل جنرل رضا ناطری صاحب کے ساتھ ان کی گہری رفاقت رہی اور مجھے ان دونوں شخصیات کا مشترکہ دوست ہونے کا اعزاز حاصل رہا۔ حال ہی میں جب ایران اسرائیل کشیدگی بڑھی تو انہوں نے مجھ سے ملنے کی خواہش ظاہر کی اور کافی دیر تک ایران سے اظہارِ ہمدردی اور حالات پر تبادلہ خیال کرتے رہے ۔
میاں منظور احمد وٹو کی شخصیت سیاست اور نجی زندگی دونوں میں منفرد تھی۔ اگر ان کی سیاسی جدوجہد اور ذاتی زندگی کو سمجھنا ہو تو ان کی کتاب “جرمِ سیاست” ایک بہترین آئینہ ہے ۔ یہ کتاب انہوں نے کوٹ لکھپت جیل میں اپنی طویل اور صبر آزما اسیری کے دوران تحریر کی—ایک ایسی اسیری جو انہوں نے سیاسی جرم کی پاداش میں کاٹی۔ ایک ملاقات میں انہوں نے کمال محبت سے مجھے اس کتاب کا نیا اور اضافہ شدہ ایڈیشن اپنے آٹوگراف کے ساتھ عطا کیا، جس میں انہوں نے اپنے حالاتِ زندگی تفصیل سے بیان کیے ہیں۔
قدرت کا عجیب اتفاق ہے کہ میاں منظور احمد وٹو اور پاکستان کی تاریخ پیدائش ایک ہی ہے ، یعنی 14 اگست۔ وہ اکثر فخر سے کہتے تھے کہ “میں خوش قسمت ہوں کہ میری سالگرہ پاکستان کی آزادی کے دن کے ساتھ وابستہ ہے ۔” قیام پاکستان کے وقت ان کی عمر 7 سال تھی اور وہ اپنے آبائی گاؤں “معظم” کے اسکول میں زیر تعلیم تھے ۔ یہ گاؤں ان کے جد امجد معظم خان وٹو نے آباد کیا تھا اور شاید دادا کی نسبت سے انہوں نے اپنے بیٹے کا نام بھی معظم رکھا۔
اپنی نجی زندگی کے بارے میں وہ بتاتے تھے کہ وہ اپنے والدین کے اکلوتے بیٹے تھے ۔ ان کی پہلی شادی طالب علمی کے دور میں ہی کر دی گئی تاکہ نسل آگے بڑھے اور اکیلا پن ختم ہو، مگر اولادِ نرینہ کے لیے انہیں آٹھ سال انتظار کرنا پڑا۔ دوسری شادی کا پس منظر بیان کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ ان کی والدہ کی شدید خواہش تھی کہ ان کے ہاں اولاد ہو، جس کی خاطر ان کی پہلی بیگم نے والدہ سے ان کی دوسری شادی کا وعدہ کر لیا تھا، یوں ان کی دوسری شادی عمل میں آئی۔ اللہ نے انہیں دونوں بیگمات سے اولاد کی نعمت سے نوازا۔ وٹو صاحب کہتے ہیں کہ اسمبلی میں کچھ منچلے اراکین شرارتاً کہتے تھے : “اسپیکر صاحب کو دو بیویوں کے ساتھ برابری کے حسن سلوک کا تجربہ ہے ، اسی لیے وہ حکومت اور اپوزیشن دونوں کے ساتھ یکساں سلوک کرتے ہیں۔”
سیاسی طور پر وہ “قومی اتفاق رائے ” کے سب سے بڑے داعی تھے ۔ ان کا ماننا تھا کہ جب حکومت اور اپوزیشن میں بول چال بند ہو جائے تو جمہوریت کا پہیہ رک جاتا ہے ۔ ان کا قول زریں تھا: “بیمار معیشت، قرضوں کا بوجھ، کمزور جمہوری ادارے اور عوام کے دکھوں کا علاج صرف اور صرف قومی اتفاق رائے میں ہے ۔ احتساب ضروری ہے ، مگر شفاف اور مساویانہ۔”
انہوں نے 1999ئ میں ایک جرات مندانہ قدم اٹھاتے ہوئے اپنے خاندان کے تمام اثاثوں کے گوشوارے اخبارات میں شائع کیے اور چیلنج کیا کہ ان کے خاندان کی جائیداد 1507 ایکڑ زرعی اراضی ہے جو وراثتی ہے ، اور بیرون ملک ان کا ایک ڈالر یا کوئی جائیداد نہیں ہے ۔ انہوں نے واشگاف الفاظ میں کہا تھا: “ہمارا جینا مرنا پاکستان کے لیے ہے ۔” مرحوم کے بقول انہوں نے اپنے دور اقتدار میں کوئی کارخانہ یا جاگیر نہیں بنائی اور نہ ہی بطور وزیراعلیٰ کسی کو کوئی پلاٹ الاٹ کیا۔ وہ احتساب کے لیے ہمیشہ خود کو پیش کرتے رہے ۔
آج میاں منظور احمد وٹو ہم میں نہیں رہے ، میرے دل میں ان کی وضع داری، اصول پسندی اور پاک ایران دوستی کے لیے ان کی خدمات ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی۔ ان کی کتاب “جرمِ سیاست” اور ان کی سیاسی بصیرت آنے والے ادوار میں رہنمائی کا ذریعہ رہیں گی۔ اللہ تعالیٰ مرحوم کے درجات بلند فرمائے اور پسماندگان کو صبر جمیل عطا کرے ۔ آمین۔

Thank you for reading this post, don't forget to subscribe!

شگر میں عام انتخابات 2026 کے پیشِ نظر سیاسی سرگرمیوں میں واضح تیزی

پاکستان تحریکِ انصاف شگر، گلگت بلتستان میں متوقع انتخابات کے حوالے سے پارٹی کے صوبائی صدر خالد خورشید اور جنرل سیکریٹری وزیر سلیم سے مسلسل رابطے میں ہے صدر حسن شگری ایڈووکیٹ

گلگت بلتستان حلقہ نمبر تین میں کپٹن ریٹائرڈ محمد شفیع کو موقع دیا تو مثبت تبدیلی آئی گی ۔ٹیم کیپٹن ریٹائرڈ محمد شفیع

column in urdu, Memory of the Late Mian Manzoor Ahmed Wattu

50% LikesVS
50% Dislikes

جرمِ سیاست کا عہد تمام ہوا، میاں منظور احمد وٹو مرحوم کی یاد میں، شبیر احمد شگری

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں