column in urdu, Media deceit and the sorrow of Gilgit-Baltistan, 0

میڈیا کی مکاری اور گلگت بلتستان کا دکھ، امتیاز گلاب بگورو
پاکستان کا خطہ گلگت بلتستان جغرافیائی، تاریخی اور اسٹریٹیجک اعتبار سے نہایت اہمیت رکھتا ہے۔ یہ خطہ نہ صرف دنیا کی بلند ترین چوٹیوں کا مسکن ہے بلکہ پاک–چین اقتصادی راہداری (CPEC) کا مرکزی دروازہ بھی ہے۔ اس اہمیت کے باوجود یہاں کے عوام دہائیوں سے بنیادی آئینی اور معاشی حقوق سے محروم ہیں۔ مسئلہ صرف وسائل یا ترقی کا نہیں، بلکہ شناخت، انصاف اور شفافیت کا ہے۔گزشتہ دو ماہ سے تاجروں اور عام شہریوں نے اپنے حقوق کے لیے پرامن احتجاج کیا۔ یہ احتجاج کسی ذاتی مفاد یا طاقت کے کھیل کے لیے نہیں بلکہ بنیادی حقوق کے حصول کے لیے تھا۔ تاجروں کے مطالبات میں ٹیکسوں کا خاتمہ، بجلی کے بحران کا حل، گندم سبسڈی کی بحالی اور معاشی انصاف شامل ہیں۔لیکن افسوس کہ ان آوازوں کو دبانے کے لیے طاقت استعمال کی گئی۔ براہِ راست فائرنگ کی گئی، کئی افراد زخمی ہوئے، خون بہا۔ مگر قومی میڈیا نے اس پر چپ سادھ لی۔ یہ وہ لمحہ تھا جب عوام کو یہ احساس ہوا کہ ان کا دکھ صرف ان کا اپنا ہے، باقی ملک کے میڈیا اور ایوانوں کے لیے یہ کوئی خبر نہیں۔
پاکستانی میڈیا جس تیزی سے بڑے شہروں کے چھوٹے سے احتجاج کو براہِ راست دکھاتا ہے، اسی میڈیا نے گلگت بلتستان کے دھرنے کو مکمل نظر انداز کیا۔ جب عوام کی آواز دبانا ممکن نہ رہا تو اب ان پر “شرپسند” کا لیبل چسپاں کر دیا گیا۔ سوال یہ ہے کہ کیا یہ صحافت ہے یا طاقت کے اشاروں پر چلنے والی مہم؟
ایسا لگتا ہے کہ ایک منظم بیانیہ بنایا جا رہا ہے: عوام کو بدنام کرو، انہیں ملک دشمن یا شرپسند قرار دو تاکہ ان کے حقیقی مسائل دب جائیں۔ یہ رویہ نہ صرف بددیانتی ہے بلکہ 22 لاکھ عوام کی اجتماعی توہین بھی ہے۔گلگت بلتستان کا تاریخی پس منظر یہ ہے کہ یہ خطہ 1947 میں ڈوگرہ راج کے خلاف عوامی بغاوت کے نتیجے میں آزاد ہوا اور پاکستان کے ساتھ الحاق کیا۔ لیکن سات دہائیوں گزرنے کے باوجود آج بھی یہ عوام آئینی حقوق اور مکمل نمائندگی سے محروم ہیں۔ نہ انہیں پارلیمان میں باقاعدہ نشست ملی، نہ ہی وسائل کی منصفانہ تقسیم۔
جب بھی یہاں کے عوام نے اپنی محرومیوں پر آواز بلند کی، انہیں یا تو نظر انداز کیا گیا یا “ملک دشمن” کہہ کر بدنام کرنے کی کوشش کی گئی۔ یہی تاریخ بار بار دہرائی جا رہی ہے۔
قارئین کرام ۔یہ حقیقت اب کسی سے ڈھکی چھپی نہیں رہی کہ پاکستانی میڈیا طاقت کے مراکز کے دباؤ کے تحت چلتا ہے۔ وہی میڈیا جو ایک بڑے شہر کی سڑک پر کسی درجن بھر افراد کے احتجاج کو بریکنگ نیوز بناتا ہے، وہی میڈیا گلگت بلتستان کے ہزاروں عوام کو اندیکھا کر دیتا ہے۔ یہی دوغلا پن سب سے بڑا سوال ہے: کیا میڈیا عوام کی آواز ہے یا صرف طاقت ور طبقے کا ترجمان؟گلگت بلتستان کے عوام کے مسائل وقتی نہیں بلکہ ساختی ہیں:آئینی حیثیت کا تعین اور پارلیمانی نمائندگی
معاشی وسائل کی منصفانہ تقسیم
سی پیک میں شفاف شمولیت
گندم سبسڈی اور مہنگائی کے خلاف تحفظ
تعلیم، صحت اور روزگار کی سہولتیں
ان مسائل کو دبانے کے لیے عوامی تحریکوں کو “شرپسندی” کا نام دیا جا رہا ہے تاکہ اصل سوال پس منظر میں چلا جائے۔
گلگت بلتستان کے عوام جانتے ہیں کہ ان کی جدوجہد لمبی اور کٹھن ہے۔ لیکن تاریخ گواہ ہے کہ انہوں نے ہر مشکل وقت میں پاکستان کا ساتھ دیا، چاہے وہ جنگ ہو یا سی پیک کی تعمیر۔ بدلے میں اگر انہیں صرف “شرپسند” کا تمغہ دیا جائے تو یہ قومی یکجہتی کے خلاف سب سے بڑی سازش ہوگی۔اب یہ ریاست اور میڈیا دونوں کا امتحان ہے۔ کیا وہ عوامی آواز کو عزت دیں گے یا طاقت کے نشے میں انہیں دبانے کی کوشش کریں گے؟ یہ یاد رکھنا چاہیے کہ آواز دبائی جا سکتی ہے مگر ختم نہیں کی جا سکتی۔ گلگت بلتستان کا شعور آج پہلے سے زیادہ بیدار ہے، اور یہ خطہ اپنی بقا، عزت اور مستقبل کے لیے ہر قیمت پر کھڑا ہے۔
محترم قارئین کرام پاکستانی میڈیا کو یہ سمجھنا ہوگا کہ صحافت کا کام عوام کی آواز کو دبانا نہیں بلکہ اسے ابھارنا ہے۔ اگر وہ عوام کے زخموں پر مرہم نہیں رکھ سکتا تو کم از کم ان پر نمک نہ چھڑکے۔ گلگت بلتستان کے عوام دشمن نہیں، بلکہ پاکستان کی طاقت اور ضمانت ہیں۔ ان کی آواز کو دبانے کی ہر کوشش تاریخ میں ناکام رہی ہے اور آئندہ بھی ناکام رہے گی۔
column in urdu, Media deceit and the sorrow of Gilgit-Baltistan,

50% LikesVS
50% Dislikes

میڈیا کی مکاری اور گلگت بلتستان کا دکھ، امتیاز گلاب بگورو

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں