column in urdu, Literature, Organization 0

ادب، تنظیم اور عالمی اُردو تحریک ، سلیم خان سے خصوصی گفتگو، یاسمین اختر ریسرچ اسکالر گوجرہ، پاکستان
مصاحبہ۔
از قلم یاسمین اختر ریسرچ اسکالر گوجرہ، پاکستان

Thank you for reading this post, don't forget to subscribe!

اردو ادب کی عالمی سطح پر ترویج و اشاعت کے حوالے سے جن ناموں نے خاموش مگر مسلسل کام کیا، ان میں سلیم خان ایک نمایاں حوالہ ہیں۔ کراچی میں آنکھ کھولنے والے، اعلیٰ تعلیم سے آراستہ، پیشہ ورانہ زندگی میں ملٹی نیشنل اداروں سے وابستہ رہنے والے، اور اب امریکہ میں مقیم سلیم خان نے ادب کو محض ذوق نہیں بلکہ ایک تحریک کے طور پر برتا۔ ان سے ہونے والی گفتگو قارئین کی نذر ہے۔

سوال: سلیم خان صاحب! سب سے پہلے اپنے قارئین سے اپنا تعارف کرائیے۔
جواب: میرا نام سلیم خان ہے۔ تعلق کراچی، پاکستان سے ہے، مگر اوائل فروری 2024 سے ہیوسٹن، ٹیکساس (امریکہ) میں مقیم ہوں۔ تعلیم کے اعتبار سے ایم اے اردو اور ایم اے انگلش کیا، مگر اصل پہچان ادب، زبان اور تنظیمی خدمات بن گئیں۔

سوال: آپ کا شمار اردو ادب کے اُن افراد میں ہوتا ہے جو پسِ پردہ رہ کر بڑے بڑے کام انجام دیتے ہیں۔ یہ سفر کہاں سے شروع ہوا؟
جواب: ادب سے تعلق محض شوق نہیں بلکہ ایک مسلسل ریاضت ہے۔ ابتدا مطالعے سے ہوئی، پھر تحریر اور بعد ازاں تنظیمی سطح پر کام کرتے کرتے ایک ایسا نیٹ ورک وجود میں آیا جو آج پاکستان، برطانیہ، سعودی عرب، انڈیا، کینیڈا اور امریکہ تک پھیلا ہوا ہے۔ میں نے ہمیشہ یہ سمجھا کہ ادب کو افراد نہیں، ادارے زندہ رکھتے ہیں۔

سوال: آپ درجنوں ادبی تنظیموں اور فورمز سے وابستہ رہے اور ہیں۔ اس قدر ذمہ داریاں کیسے نبھاتے ہیں؟
جواب: یہ سب نظم، مستقل مزاجی اور نیت کا معاملہ ہے۔ انجمن ترویج زبان و ادب بین الاقوامی، دریچہ ادب کے مختلف یونٹس، عالمی اردو ادب، ادبی بیٹھک، اردو جہاں، بزم اردو انٹرنیشنل کینیڈا، انداز بیاں اور، حصارِ ادب عالمی، سرخیل ادب، تحریکِ توازن اردو ادب، تفہیم فکر اقبال، اردو ھدف، جیمز بکس گروپ، ہم زبان، بزمِ غزال، مقالہ جات، حلاوت سخن، یہ سب محض نام نہیں بلکہ ایک فکری رشتہ ہیں۔ میں خود کو منتظم سے زیادہ خادمِ ادب سمجھتا ہوں۔

سوال: پیشہ ورانہ زندگی میں آپ نے ادب کے ساتھ ساتھ کارپوریٹ دنیا میں بھی نمایاں خدمات انجام دیں۔
جواب: جی بالکل۔ اصل۔میں اردو میری شناخت بھی ہے اور میرا اوڑھنا بچھونا بھی۔ یہی شغف آگے چل کر ادبی تنظیم سازی اور فکری سرگرمیوں کا سبب بنا۔پچیس برس تک ایک ملٹی نیشنل فارماسیوٹیکل کمپنی میں مارکیٹنگ ہیڈ کے ساتھ منسلک رہا۔ اس کے بعد موبائل ٹیلی کام سیکٹر میں بطور پراجیکٹ اور کنٹریکٹ مینیجر کام کیا۔ یہی پیشہ ورانہ نظم و ضبط بعد ازاں ادبی تنظیم کاری میں بہت کام آیا۔

سوال: موسیقی اور ڈیجیٹل لائبریری کے حوالے سے بھی آپ کا نام خاصا معروف ہے۔
جواب: موسیقی میرا جنون ہے اور میری ڈیجیٹل لائبریری میری پہچان۔ اس میں نایاب کتب، رسائل، تحقیقی مواد اور صوتی ذخیرہ شامل ہے، جو ادبی شائقین کے لیے ایک نعمت ہے۔ میرا ماننا ہے کہ علم بانٹنے سے بڑھتا ہے۔

سوال: اردو ادب کا مستقبل آپ کی نظر میں کیسا ہے؟
جواب: اردو کا مستقبل روشن ہے، بشرطیکہ ہم اسے جذبات نہیں، فہم کے ساتھ آگے بڑھائیں۔ عالمی سطح پر اردو کی جو سرگرمیاں ہو رہی ہیں، وہ امید افزا ہیں، اور میں ان شاء اللہ اس سفر کا حصہ بنا رہوں گا۔

سوال: آپ کا شمار اُن افراد میں ہوتا ہے جو درجنوں ادبی تنظیموں اور فورمز سے وابستہ ہیں۔ اس قدر ہمہ جہت سرگرمی کا محرک کیا ہے؟
جواب: میرا ماننا ہے کہ ادب تنہائی میں نہیں پنپتا، اسے اجتماعی فضا درکار ہوتی ہے۔ اسی سوچ کے تحت میں نے مختلف پلیٹ فارمز پر کام کیا، چاہے وہ انجمن ترویج زبان و ادب بین الاقوامی ہو، تفہیم فکر اقبال، تحریکِ توازن اردو ادب، انداز بیاں اور، حصارِ ادب عالمی یا دریچہ ادب کے مختلف یونٹس۔ مقصد ایک ہی رہا: اردو کو زندہ، متحرک اور نئی نسل سے مربوط رکھنا۔

سوال: دریچہ ادب اور دیگر عالمی فورمز کے حوالے سے آپ کی خدمات کو کس زاویے سے دیکھا جائے؟
جواب: یہ سب اجتماعی کاوشیں ہیں۔ دریچہ ادب کے راولپنڈی، اسلام آباد، کراچی، لاہور، کوئٹہ اور حافظ آباد یونٹس ہوں یا کینیڈا، امریکہ اور برطانیہ کے فورمز، ہم نے ہمیشہ نئے لکھنے والوں کو متعارف کرانے، تنقیدی شعور کو فروغ دینے اور ادب کو گروہی سیاست سے بچانے کی کوشش کی۔

سوال: اوائل فروری 2024 میں آپ امریکہ منتقل ہوئے۔ اس تبدیلی کو کیسے دیکھتے ہیں؟
جواب: یہ محض جغرافیائی تبدیلی ہے، فکری نہیں۔ میں اب ہیوسٹن، ٹیکساس میں مقیم ہوں، مگر اردو، پاکستان اور عالمی ادب سے رشتہ پہلے سے زیادہ مضبوط ہے۔ ڈیجیٹل دور نے فاصلے سمیٹ دیے ہیں، اس لیے سرگرمیاں پوری توانائی کے ساتھ جاری ہیں۔

سوال: اب ریٹائرمنٹ کے بعد زندگی کا محور کیا ہے؟

جواب: سادہ زندگی، گہرا مطالعہ، ادبی سرگرمیاں اور نوجوانوں کی حوصلہ افزائی۔ میں سمجھتا ہوں کہ ریٹائرمنٹ اختتام نہیں بلکہ تخلیقی آزادی کا آغاز ہوتی ہے۔
اب وقت بھی ہے اور یکسوئی بھی۔ ادب پرور ذوق و شوق آج بھی پوری امنگ اور توانائی کے ساتھ موجود ہے اور ان شاءاللہ آئندہ بھی جاری رہے گا۔

سوال: نئی نسل کے لکھاریوں کے لیے آپ کا پیغام؟
جواب: سوشل میڈیا کو مقصد بنائیں، منزل نہیں۔ زبان کی خدمت کریں، زبان سے فائدہ اٹھانے کی کوشش نہ کریں۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اختلاف کو دشمنی نہ بنائیں۔
مطالعہ کو شعار بنائیں، تنقید سے نہ گھبرائیں، اور ادب کو شہرت کا زینہ نہیں بلکہ خدمت سمجھیں کیوں کہ اردو کی بقا اسی میں ہے۔

سلیم خان کی شخصیت اس حقیقت کی گواہ ہے کہ ادب کسی ایک خطے یا عمر کا محتاج نہیں۔ یہ ایک مسلسل سفر ہے، جس میں خلوص، تنظیم اور وژن ہو تو کام خود بولنے لگتا ہے۔ سلیم خان محض ایک فرد نہیں، ایک ادارہ ہیں۔ وہ خاموشی سے کام کرنے والوں میں سے ہیں، جن کی محنت کے بلند و بانگ نعرے نہیں ہوتے بلکہ اثر دیرپا ہوتا ہے۔ ادب، تنظیم، تحقیق اور موسیقی، یہ سب ان کے وجود میں یوں ضم ہیں کہ ایک کے بغیر دوسرا ادھورا محسوس ہوتا ہے۔ ایسے لوگ ہی دراصل زبان و ادب کی اصل طاقت اور پہچان ہوتے ہیں۔

شگر کے سیاستدانوں کی کارکردگی ، ای ایس ڈی شگری

اسکردو مصطفیٰ علی حکیمی بلتی کھر اسٹوڈینٹس آرگنائزیشن کے صدر منتخب، عباس علی جنرل سیکریٹری مقرر ، بلتی کھر اسٹوڈینٹس آرگنائزیشن کے سالانہ انتخابات نہایت خوش اسلوبی، نظم و ضبط اور جمہوری انداز میں کامیابی کے ساتھ مکمل ہو گئے

محترمہ بینظیر بھٹو کی شہادت جمہوریت، آئین کی بالادستی اور عوامی حقوق کی جدوجہد کی ایک عظیم اور روشن مثال ہے، ر پاکستان پیپلز پارٹی ضلع شگر کے ترجمان وجاہت علی ایڈووکیٹ

50% LikesVS
50% Dislikes

ادب، تنظیم اور عالمی اُردو تحریک ، سلیم خان سے خصوصی گفتگو، یاسمین اختر ریسرچ اسکالر گوجرہ، پاکستان

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں