column in urdu, Law of Consequences Justice of the Universe 0

مکافات عمل: کائنات کا اٹل انصاف , پارس کیانی ساہیوال، پاکستان
انسان جب سے اس دنیا میں آیا ہے، اسے ایک سوال ہمیشہ بے چین کرتا رہا ہے کہ اس کے کیے ہوئے اچھے یا برے کام کا نتیجہ آخر اسے کیوں اور کیسے ملتا ہے۔
اور وہ یہ بھی سوچتا ہے کہ کہیں یہ اس کی اپنے دماغ کی اختراع تو نہیں یا اس کی کوئی شخصی کمزوری تو نہیں جو اسے سوچنے پر مجبور کرتی ہے کہ مکافات عمل (karma) جیسی بھی کوئی چیز ہے جس کے خوف کے تحت وہ زندگی گزارتا ہے۔
مختلف تہذیبوں، مذاہب اور فلسفوں میں اس سوال کا جواب مختلف ناموں سے دیا گیاہے، کسی نے اسے “کرم” کہا، کسی نے “مکافاتِ عمل”، کسی نے “اخلاقی قانون”، کسی نے “فطری ردّعمل”۔
مگر ایک بات سب میں مشترک ہے: انسان جو کچھ کرتا ہے، وہی کسی نہ کسی صورت میں اس کے سامنے آ جاتا ہے۔ زندگی کے چلتے، وہ کائنات کے حوالے جو بھی قوتیں کرتا ہے کائنات پوری قوت سے اسے واپس کرتی ہے۔
اگر کوئی مذہب یا خدا کو نہ بھی مانے، تب بھی کائنات کا نظام ایک سادہ اصول پر استوار ہے کہ ہر عمل ایک ردّعمل کو جنم دیتا ہے۔
“اگر کوئی خدا کا انکار بھی کر دے تو کائنات کی توانائیوں کا انکار نہیں کر سکتا۔”
ہر سوچ، ہر جذبہ، ہر عمل اپنے اندر ایک لہر رکھتا ہے۔ یہ لہر فضا میں چھوڑتے ہی اپنا سفر شروع کر دیتی ہے، اور سائنس کے مطابق electro magnetic field اور انسانی bio-field کی صورت میں گھوم کر واپس اسی انسان کے دل و دماغ پر اثر انداز ہوتی ہے۔
اسی ردّ عمل کو مذہبی زبان میں مکافاتِ عمل کہا جاتا ہے، اور سائنسی زبان میں
resonance vibration
اور bio-energy کا اصول۔
یہ صرف سائنسی حقیقت نہیں بلکہ زندگی کا بنیادی ڈھانچہ ہے۔ جدید دماغی علوم ( مجموعی طور پر )
( cognetive and behaveroul sciences esp.)
کے مطابق جب انسان کوئی نیکی کرتا ہے، کسی کی مدد کرتا ہے، نرم رویہ اختیار کرتا ہے یا سچائی پر قائم رہتا ہے تو انسان کے دماغ میں ایسے کیمیکلز پیدا ہوتے ہیں جو اس کے اندر اعتماد، سکون اور خوشی کی لہریں بیدار کرتے ہیں۔ یوں اس کے رویّے، فیصلے اور سوچ مثبت ہو جاتی ہے اور وہ بہتر حالات اپنی طرف کھینچنے لگتا ہے۔ اس کے برعکس بددیانتی، نفرت، دھوکا اور ظلم وہ کیمیکلز بڑھاتے ہیں جو بے چینی، اضطراب اور بوجھل ذہنی کیفیت پیدا کرتے ہیں۔ یعنی چاہے کوئی مانے یا نہ مانے، کائنات انسان کے ہر عمل کو ایک مخصوص توانائی کے طور پر قبول کرتی ہے اور اسی نوعیت کی لہریں کئی گنا اضافہ کے ساتھ واپس لوٹا دیتی ہے۔
انسانی ذہن کے ماہرین کا موقف یہ ہے کہ برائی کا سب سے پہلا عذاب انسان کے اپنے اندر پنپتا ہے۔ جو شخص ظلم کرتا ہے، دھوکا دیتا ہے یا کسی کا حق مارتا ہے، اس کے شعور کے کسی کونے میں خوف، بداعتمادی اور گناہ کا احساس جڑ پکڑ لیتا ہے۔ وقت کے ساتھ یہ احساس اس کے کردار کو کھوکھلا کرتا ہے، اس کے رشتوں میں دراڑیں ڈالتا ہے اور زندگی میں مسلسل بے سکونی پھیلا دیتا ہے۔ نیکی کا اثر بالکل اُلٹ ہوتا ہے۔ اچھا کرنے والا فرد سب سے پہلے اپنے اندر ہلکا پن اور اعتماد محسوس کرتا ہے، اس کی سوچ میں وسعت آتی ہے اور اس کے رویے میں نرمی پیدا ہوتی ہے۔ یوں وہ خود کو بھی سنوارتا ہے اور ماحول کو بھی بہتر بناتا ہے۔
سماجی علوم کی رو سے معاشرہ بھی انسان کے عمل کو دیر تک نظرانداز نہیں کرتا۔ جو شخص لوگوں کے لیے آسانیاں پیدا کرتا ہے، انصاف کا خیال رکھتا ہے یا دوسروں کے ساتھ سچائی کا رویہ اختیار کرتا ہے، سماج اسے عزت دیتا ہے۔ لوگ اس پر بھروسہ کرتے ہیں، اسے پذیرائی ملتی ہے اور اس کا دائرۂ اثر وسیع ہوتا ہے۔ مگر جو فرد دھوکا دینے والا، موقع پرست یا نقصان پہنچانے والا ہو، معاشرہ اسے کسی نہ کسی مرحلے پر ردّ بھی کر دیتا ہے اور اس رویے کا منفی انجام اس کی زندگی میں ضرور سامنے آتا ہے۔ دنیا کی تاریخ بھی یہی سبق دیتی ہے کہ ظلم اور ناانصافی کی بنیاد پر کھڑی ہوئی کوئی طاقت دیرپا نہیں رہی، جبکہ انصاف، انسانی وقار اور خیرخواہی پر مبنی رویے ہمیشہ دیرپا اثرات چھوڑتے ہیں۔
زمانہ گواہ ہے کہ بڑے بڑے ظالم وقت کے ایک موڑ پر شکست سے دوچار ہوئے۔ طاقت، دولت اور اختیار سب کچھ ہوتے ہوئے بھی وہ داخلی خوف اور عدم تحفظ سے نہیں بچ سکے۔ اس کے برعکس وہ لوگ جنہوں نے انسانیت، انصاف اور سچائی کو اختیار کیا، چاہے عارضی مشکلات کا شکار ہوئے، مگر وقت نے ان کا ساتھ دیا۔ یہ محض اخلاقی یا مذہبی بیانیہ نہیں بلکہ تاریخی حقیقت ہے۔ مکافات عمل یا عمل کی واپسی یا فطری رد عمل ایک ایسا اصول ہے جسے ماننے کے لیے مذہب ضروری نہیں۔
یہ بالکل ایسے ہے جیسے کششِ ثقل کو ماننے سے انکار کر دیں، چاہے مانیں یا نہ مانیں، وہ پھر بھی اثر کرتی ہے۔
انسان کا ہر لفظ، ہر خیال، ہر ارادہ، ہر عمل ایک توانائی ہے جو کائنات میں گشت کرتی ہے اور اپنے جیسی توانائیوں کو کھینچ کر واپس لاتی ہے۔
Karma ( بدلے کا عمل )
آخر کیسے چلتا ہے؟
آپ محبت دیتے ہیں، محبت ملتی ہے
آپ دوسروں کے لیے راستے آسان کرتے ہیں، آپ کے راستے کھلتے ہیں
آپ حسد، بغض، نفرت پھیلاتے ہیں، یہی چیزیں کئی گنا ہو کر آپ تک پہنچتی ہیں
آپ رزق روکتے ہیں، رزق آپ سے روٹھ جاتا ہے
یہ کوئی روحانی نعرہ نہیں، یہ انسانی تعلقات، نفسیات، معاشرت اور فطرت کا جامع قانون ہے۔
اور کائنات کے فیصلے کبھی غلط نہیں ہوتے
مکافاتِ عمل کی سب سے خوبصورت بات یہ ہے کہ یہ اندھا انصاف کرتا ہے۔
یہ ذات، مذہب، مقام، طاقت، دولت، ،شہرت کسی چیز کی رعایت نہیں کرتا۔
اسی لیے دانا کہتے ہیں:
“کائنات خاموش ہے، مگر حساب بہت باریک رکھتی ہے۔ انسان کا ہر لفظ، ہر ارادہ اور ہر عمل ایک توانائی بن کر فضا میں جاتا ہے اور پھر ایسا نہیں ہوتا کہ وہ کہیں گم ہو جائے۔ یہ واپس آتا ہے، مگر پہلے سے زیادہ طاقت کے ساتھ۔ یہی زندگی کا سب سے غیرجانبدار اصول ہے۔
انسان جب محبت، خیرخواہی، آسانی یا نیکی بانٹتا ہے تو انہی خوبیوں کے دروازے اس کی اپنی زندگی میں کھلنے لگتے ہیں۔ اور جب وہ نفرت، حسد، بغض یا نقصان پھیلاتا ہے تو انہی چیزوں کا بوجھ اس کی راہ میں حائل ہو جاتا ہے۔ رزق، عزت، سکون اور کامیابی بھی اسی اصول کے تابع چلتے ہیں۔ آسانیاں بانٹنے والا شخص آسانیوں کا مالک بنتا ہے، مگر دوسروں کے لیے مشکل پیدا کرنے والا فرد خود بھی مشکلات کے بھنور میں آ جاتا ہے۔
تاریخ کے صفحات بھی مکافاتِ عمل کی سب سے بڑی شہادت ہیں۔ روم کی عظیم سلطنت ہو یا یونان کی فکری حکومت، عرب کی وسعتیں ہوں یا منگولوں اور عثمانیوں کی شہرت، جب تک یہ انصاف، نظم اور اعتدال پر قائم رہیں، دنیا نے ان کے سامنے سر جھکایا۔ اور جب ظلم، تکبر، بددیانتی اور انسانیت سے انحراف بڑھا تو انہی سلطنتوں کے ستون زمین بوس ہو گئے۔ فرعون کے پاس طاقت بےپناہ تھی مگر تکبر نے اسے ڈبو دیا۔ ہٹلر کے پاس لشکر تھے مگر نفرت نے اسے تباہ کر دیا۔ اس کے برعکس نیلسن منڈیلا جیسے لوگ جن کے پاس طاقت نہیں تھی، صرف سچائی اور انصاف کا اصول تھا، وقت نے انہیں عزت، وقار اور عظمت کے اعلیٰ مقام پر فائز کر دیا۔ یہ کوئی مذہبی یا روحانی دعویٰ نہیں بلکہ تاریخ کا فیصلہ ہے۔
مکافاتِ عمل کی سب سے بڑی خوبصورتی یہ ہے کہ یہ کسی طاقت، دولت یا رتبے سے متاثر نہیں ہوتا۔ یہ کسی ذات، مذہب، علاقے یا حیثیت کے لحاظ سے فیصلہ نہیں کرتا۔ یہ صرف عمل کو دیکھتا ہے، نیت کو جانچتا ہے اور پھر وقت آنے پر اپنا فیصلہ سنا دیتا ہے۔ انسان چاہے جتنا بڑا منصوبہ ساز بن جائے، کائنات کے باریک حساب سے نہیں بچ سکتا۔ انسان جو کچھ دیتا ہے، وہی ایک دن مجبوراً اس کے دروازے پر لوٹ کر کھڑا ہو جاتا ہےکبھی روشنی بن کر، کبھی اندھیرا بن کر۔
column in urdu, Law of Consequences Justice of the Universe

Thank you for reading this post, don't forget to subscribe!

جرمِ سیاست کا عہد تمام ہوا، میاں منظور احمد وٹو مرحوم کی یاد میں، شبیر احمد شگری

شگر میں عام انتخابات 2026 کے پیشِ نظر سیاسی سرگرمیوں میں واضح تیزی

پاکستان تحریکِ انصاف شگر، گلگت بلتستان میں متوقع انتخابات کے حوالے سے پارٹی کے صوبائی صدر خالد خورشید اور جنرل سیکریٹری وزیر سلیم سے مسلسل رابطے میں ہے صدر حسن شگری ایڈووکیٹ

50% LikesVS
50% Dislikes

مکافات عمل: کائنات کا اٹل انصاف , پارس کیانی ساہیوال، پاکستان

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں