آخری زمانے میں علماء کی توہین، سید مظاہر حسین کاظمی
علماء دین وہ لوگ ہیں جو قرآن و سنت کی تعلیمات کو سمجھتے اور امت تک پہنچاتے ہیں۔ ان کا احترام دراصل دین کا احترام ہے، اور ان کی توہین گویا اسلام کی توہین ہے۔ لیکن نبی اکرم ﷺ نے خبر دی تھی کہ آخری زمانے میں ایسے لوگ پیدا ہوں گے جو علماء کی توہین کریں گے اور انہیں حقیر سمجھیں گے۔ یہ دراصل قیامت کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے۔
قرآن مجید میں علماء کا مقام
اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں اہل علم کا مرتبہ بیان کرتے ہوئے فرمایا:
﴿قُلْ هَلْ يَسْتَوِي الَّذِينَ يَعْلَمُونَ وَالَّذِينَ لَا يَعْلَمُونَ﴾
(الزمر: 9)
ترجمہ: “کہہ دیجیے: کیا وہ لوگ جو جانتے ہیں اور جو نہیں جانتے، برابر ہوسکتے ہیں؟”
اسی طرح فرمایا:
﴿إِنَّمَا يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبَادِهِ الْعُلَمَاءُ﴾
(فاطر: 28)
ترجمہ: “اللہ سے تو صرف اس کے بندوں میں سے علماء ہی ڈرتے ہیں۔”
یہ آیات اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ علماء اللہ کے نزدیک نہایت بلند مقام رکھتے ہیں اور ان کا احترام امت پر لازم ہے۔
احادیث مبارکہ میں علماء کا احترام
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
1. “العلماء ورثة الأنبياء”
(ترمذی)
ترجمہ: “علماء انبیاء کے وارث ہیں۔”
یعنی انبیاء کرام کے بعد دین کی امانت علماء کے سپرد ہے۔ ان کی توہین دراصل نبوت کی وراثت کی توہین ہے۔
2. “من لم يرحم صغيرنا، ويعرف حق كبيرنا، فليس منا”
(مسند احمد)
ترجمہ: “جو ہمارے چھوٹوں پر رحم نہ کرے اور بڑوں (علماء و اہل فضل) کا حق نہ پہچانے، وہ ہم میں سے نہیں۔”
3. ایک اور حدیث میں آیا:
“سيأتي على الناس زمان لا يبقى من الإسلام إلا اسمه، ولا من القرآن إلا رسمه، مساجدهم عامرة وهي خراب من الهدى، علماؤهم شر من تحت أديم السماء”
(بیہقی، شعب الایمان)
ترجمہ: “لوگوں پر ایک زمانہ آئے گا کہ اسلام کا صرف نام باقی رہ جائے گا، قرآن کی صرف کتابت باقی رہ جائے گی، ان کی مسجدیں آباد ہوں گی مگر ہدایت سے خالی ہوں گی، اور ان کے علماء آسمان کے نیچے بدترین لوگ ہوں گے۔”
یہ حدیث اس حقیقت کو ظاہر کرتی ہے کہ آخری زمانے میں ایک طرف علماء سوء پیدا ہوں گے جو دین کو دنیا کے لیے بیچیں گے، اور دوسری طرف ایسے نادان لوگ بھی ہوں گے جو ہر عالم کو برا بھلا کہنے لگیں گے۔نبی اکرم ﷺ نے خبر دی:
“يأتي على الناس زمان يفرون من العلماء كما يفر الغنم من الذئب”
(کنزالعمال)
ترجمہ: “لوگوں پر ایک زمانہ ایسا آئے گا کہ وہ علماء سے ایسے بھاگیں گے جیسے بکریاں بھیڑئیے سے بھاگتی ہیں۔”
یعنی عوام علماء کو نقصان دہ یا بے فائدہ سمجھ کر ان سے دور بھاگے گی، ان کے احترام کو چھوڑ دے گی، بلکہ بعض جگہ تو ان کی تضحیک اور توہین کرے گی۔ یہ فتنہ قیامت کی نشانیوں میں سے ہے۔
علماء کی توہین کے نتائج
ایسے معاشرے سے برکت اٹھا لی جاتی ہے۔
علم دین کا نور مٹنے لگتا ہے۔
جہالت اور گمراہی عام ہو جاتی ہے۔
امت پر فتنوں اور عذاب کے دروازے کھل جاتے ہیں۔
قرآن و حدیث سے یہ واضح ہوتا ہے کہ علماء کی عزت اور توقیر دراصل دین کی توقیر ہے۔ آخری زمانے میں جہاں علماء سوء کی کثرت ہوگی، وہیں عوام الناس میں علماء کی توہین کا رجحان بھی بڑھ جائے گا، جو امت کے زوال کی بڑی وجہ ہوگا۔ لہٰذا ہمیں چاہیے کہ نیک اور سچے علماء کا احترام کریں، ان سے دین سیکھیں، اور ان کی توہین و تذلیل سے بچیں، ورنہ یہ ہمیں آخرت میں نقصان پہنچائے گا۔
column in urdu, Insulting scholars
