مصروفیت کے ملبے تلے دبی انسانیت، یاسر دانیال صابری
ہم ایک ایسے عہد میں زندہ ہیں جہاں انسان کی زندگی زیادہ تر کام، ذمہ داری اور دوڑ میں گزر جاتی ہے۔ یہ دوڑ کبھی اختتام تک نہیں پہنچتی، بس ایک کام کے بعد دوسرا آ جاتا ہے، اور ہر لمحہ ہمیں مصروف رکھنے کی کوشش کرتا ہے۔ ہم نے بچپن سے یہ سیکھا کہ جو زیادہ مصروف ہے، وہ زیادہ کامیاب ہے، اور جو کم کرتا ہے یا رک جاتا ہے، وہ ناکام ہے۔ مگر یہ سچائی کبھی سامنے نہیں آتی کہ مسلسل مصروف رہنے سے انسان کا دل کب سکون کھو دیتا ہے، روح کب تھک جاتی ہے، اور خود کی پہچان کہاں چھپ جاتی ہے۔ ہم نے اپنی قدر کو صرف اس پیمانے پر تولنا شروع کر دیا کہ ہم کتنے کام کر سکتے ہیں، اور اس تول میں ہم خود کو بھول گئے، اپنی خوشیوں کو، اپنی خواہشوں کو، اور اپنی انسانیت کو نظر انداز کر دیا۔ ہم نے کام کو عبادت اور اپنی زندگی کو قربانی سمجھ لیا، مگر اس قربانی میں ہم اپنی اصل شناخت سے محروم ہو گئے۔
دنیا ہمیں یہ سکھا رہی تھی کہ مصروف رہنا فخر ہے، تھکنا طاقت ہے، اور سکون تلاش کرنا کمزوری۔ ہم نے اپنی آنکھوں کی روشنی، اپنے دل کی دھڑکن اور اپنے اندر کے احساسات کو نظر انداز کر دیا۔ رشتے رسمی ہو گئے، باتیں مختصر ہو گئیں، اور دلوں کے بیچ فاصلہ بڑھتا گیا۔ ہم نے دن بھر کام کیا، رات بھر فکروں میں گھنے، اور خواب دیکھنا بھی ایک عذاب لگنے لگا۔ ہر کام مکمل ہونے سے پہلے دوسرا کام سامنے آ جاتا اور انسان کے اندر کی تھکن بڑھتی چلی جاتی۔ ہم جیتے جی مصروف رہے، مگر زندہ نہیں رہے۔ ہمیں یہ احساس بھی نہیں ہوا کہ کام کے ملبے تلے ہماری انسانیت دب چکی ہے، ہماری محبتیں چھپ گئی ہیں، ہماری خاموش دعائیں بھی بے صدا ہو گئی ہیں۔ھی
پھر وہ لمحہ آتا ہے جب انسان تھک کر اپنے آپ سے آنکھیں ملا لیتا ہے، اور اندر سے کہتا ہے کہ اب بس۔ یہ لمحہ شور و غل نہیں کرتا، یہ ایک خاموش، مگر طاقتور بغاوت ہوتی ہے۔ یہی وہ لمحہ ہے جب ہر کام ادھورا چھوڑ دیا جاتا ہے، مگر انسان پہلی بار خود سے سچ بولتا ہے۔ یہ ادھورا چھوڑ دینا بزدلی نہیں، یہ اپنے آپ کو سننے اور سمجھنے کی پہلی کوشش ہے۔ یہ اعتراف ہے کہ انسان کی حد ہے، انسان مشین نہیں، اور اس کی روح کو بھی وقت چاہیے۔ اس خاموش احتجاج میں زندگی کی اصل حقیقت چھپی ہے: انسان کی قدر اس کی مصروفیت سے نہیں، اس کی انسانیت سے ہے۔ وہ احساس، وہ محبت، وہ سکون جو ہم نے کام کی آڑ میں کھو دیا تھا، اب دوبارہ تلاش کرنے کا وقت ہے۔
اور شاید یہی سب سے بڑا سبق ہے جو ہمیں یہ زمانہ دیتا ہے: اگر کچھ کام ادھورے رہ جائیں تو دنیا ختم نہیں ہو جاتی، مگر اگر انسان اپنی روح کو مکمل طور پر بھول جائے تو سب کچھ بے معنی ہو جاتا ہے۔ ہمیں اب یہ سیکھنا ہوگا کہ کم کرنا بھی ہنر ہے، رکنا بھی حق ہے، اور خود کو سننا سب سے بڑی ضرورت۔ مصروفیت کے ملبے تلے دبتی ہوئی انسانیت کو دوبارہ اپنی روشنی دکھانے کا موقع دینا ہوگا، تاکہ ہم محض کام کرنے والے نہیں، بلکہ دل سے جینے والے انسان بن سکیں۔ کیونکہ آخر میں، یاد وہی رہتا ہے جو اندر سے زندہ رہا، جو تھکن کے باوجود اپنے احساسات کو نہیں بھول سکا، اور جس نے مصروفیت کے اس شور میں بھی اپنی انسانیت کو زندہ رکھا۔
ہمیں یہ سمجھنا چاہیے کہ مصروفیت کا بوجھ اپنی جگہ ضروری ہے، مگر اپنی انسانیت، احساسات اور سکون کو نظر انداز کرنا سب سے بڑا نقصان ہے۔ ہمیں خود کو سننے کی عادت ڈالنی ہوگی، اپنے دل کی آواز کو اہمیت دینی ہوگی، اور وقتاً فوقتاً رک کر اپنی زندگی کا جائزہ لینا چاہیے۔ یہ نہیں کہ ہر کام کو چھوڑ دیں، بلکہ یہ دیکھیں کہ کون سا کام ضروری ہے اور کون سا بوجھ صرف تھکن پیدا کر رہا ہے۔ ہمیں اپنے رشتوں، محبتوں اور خوابوں کو وقت دینا ہوگا، اپنی روح کو وہ سکون دینا ہوگا جس کی وہ طلب کر رہی ہے۔ اس کے بغیر ہماری زندگی محض مصروفیت کا نام رہے گی، اصل انسانیت کہیں دب کر رہ جائے گی۔ اس لیے اب وقت ہے کہ ہم کام کے ساتھ ساتھ خود کو بھی مکمل کرنے کی کوشش کریں، اپنی تھکن کو قبول کریں، اور آہستہ آہستہ اپنی انسانیت کو آزاد کر کے دوبارہ زندہ کریں۔
column in urdu, Humanity Buried Under the Rubble of Busyness
دہشت گردی کا نیا خطرہ افغانستان سے اٹھ رہا ہے، عالمی برادری طاـ لباـ ن پر دباؤ ڈالے: وزیراعظم
گلگت بلتستان میں سیاسی قیادت کا خلا۔ عوام کس طرف دیکھ رہے ہیں ، زبیح اللہ ناجی




