اقتدار اور رویے کا حسن ، آمینہ یونس
صاحب اقتدار لوگوں کو چاہیے کہ اپنے رویّوں میں نرمی اور حسنِ سلوک پیدا کریں۔ اقتدار کا مطلب صرف حکومتی تخت و تاج نہیں ہوتا، بلکہ گھروں کے سربراہ، آفس کے افسران، اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں کے عہدیداران سب ہی کسی نہ کسی درجے میں صاحبِ اقتدار ہوتے ہیں۔ جب کوئی شخص سربراہ بنتا ہے تو اکثر وہ اپنے مرتبے کے مطابق اپنا رویّہ بدل لیتا ہے۔ اس سختی اور رعب سے اُس کے زیرِ اثر رہنے والے لوگ خوف اور احساسِ کمتری میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ نتیجتاً وہ اپنی خود اعتمادی کھو بیٹھتے ہیں۔ اور معاشرے میں کمزور افراد جنم لیتے ہیں۔ ایسا نقصان صرف فرد تک محدود نہیں رہتا، بلکہ پورا معاشرہ اور پوری قوم اس کے بوجھ تلے آ جاتی ہے۔ لہٰذا ضروری ہے کہ ہر صاحبِ اختیار اپنے لہجے اور اپنے برتاؤ کا مسلسل محاسبہ کرے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ آپ کے رویّے کی سختی کسی کی شخصیت کو دبا دے یا اس کا اعتماد چھین لے۔ نرم گفتاری، شفقت اور اعتدال ہی وہ اوصاف ہیں جو اقتدار کو باوقار اور معاشرے کو مضبوط بناتے ہیں۔
قوموں کی ترقی میں نوجوان ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں، ، یوتھ مومنٹ مرہ پی کے چیئرمین شیر علی شگری
>قراقرم یونیورسٹی میں ہونے والی کہانی کی اصل حقیقت اور انتظامیہ کی نا اہلی،
column in urdu, Grace of Power




