فرقہ واریت کے زہریلے بادل منڈلانے لگے ہیں۔ یاسر دانیال صابری
گلگت بلتستان میں شیعہ، سنی اور اسماعیلی آپس میں بھائی بھائی ہیں۔ یہ خطہ محبت، امن اور باہمی احترام کی علامت رہا ہے۔ یہاں کے لوگ ہمیشہ ایک دوسرے کے دکھ سکھ میں شریک رہے ہیں اور مذہبی اختلافات کے باوجود بھائی چارے کا رشتہ مضبوط رکھا ہے۔ مگر افسوس کہ کچھ دنوں سے چند ایسے واقعات رونما ہوئے ہیں جنہوں نے اس خطے کے امن کو ہلا کر رکھ دیا ہے اور ایک بار پھر فرقہ واریت کے زہریلے بادل منڈلانے لگے ہیں۔
یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ گزشتہ کچھ برسوں سے گلگت بلتستان کے عوام نے جس بالغ نظری اور صبر و تحمل کا مظاہرہ کیا ہے، وہ پورے ملک کے لیے ایک مثال ہے۔ ہڈورو واقعہ ہو، آغا راحت الحسینی کے دو گارڈز کی شہادت کا سانحہ، یا پھر استور میں ایک شخص کی جانب سے اہلیت کے خلاف نازیبا الفاظ کا استعمال ، عوام نے ہر بار ہوش مندی کا ثبوت دیا۔ کاشان قتل کیس میں دنیور مچوکال کا نوجوان جگلوٹ میں بے دردی سے قتل ہوا، لیکن اس کے باوجود امن برقرار رہا۔ آتیکو کے سوشل میڈیا پروپیگنڈے کے ذریعے بھی حالات خراب نہیں کروائے جا سکے۔ یہاں تک کہ آٹھ محرم الحرام کو چھموگڑھ میں واقعہ پیش آیا، مگر گلگت کے عوام نے برداشت اور عقل مندی سے کام لیتے ہوئے امن کو قائم رکھا۔
کل صبح ایک بار پھر گلگت شہر میں جج عنایت الرحمن اور معروف عالمِ دین قاضی نثار احمد پر حملہ ہوا۔ قاضی صاحب کے بازو پر چوٹ آئی اسکے پروٹیکشن بندے زخمی ہوئے ،زخمیوں کو بگروٹ کا ایک نوجوان لیاقت نے اہسپتال پہنچا کر امن کے دائی رہے، مگر یہ واقعہ پورے علاقے کے لیے تشویش کا باعث بنا۔ تاہم قابلِ فخر بات یہ ہے کہ اس بار بھی عوام نے اشتعال کے بجائے ضبط و تحمل کا مظاہرہ کیا۔ اہلِ تشیع اور اہلِ سنت دونوں مسالک کے افراد پرامن احتجاج کے لیے نکلے، اور کسی نے بھی دشمن کو اپنے درمیان نفرت کا موقع نہیں دیا۔ یہ اس بات کی علامت ہے کہ گلگت بلتستان کے لوگ اب سمجھ چکے ہیں کہ دشمن کون ہے، اور امن ہی ان کی اصل طاقت ہے۔
احبابِ ذوق اور اہلِ فکر کا کہنا ہے کہ یہ تمام واقعات ایک بڑی سازش کا حصہ ہیں۔ عوام کو احتجاجوں اور جھوٹے نعروں میں الجھا کر گلگت بلتستان کو غیر مستحکم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ ایک منظم منصوبہ بندی کے تحت اس خطے کے باسیوں کو دہشت گرد قرار دینے کی تیاری ہو رہی ہے تاکہ یہاں کے وسائل اور قیمتی پہاڑوں پر قبضہ آسان ہو جائے۔ معدنیات اور پتھروں کی دولت پر نظر رکھنے والے چند مافیاز انسانی جان کی قیمت کو روندتے جا رہے ہیں۔ مگر خوش آئند بات یہ ہے کہ گلگت بلتستان کے عوام اب باشعور ہو چکے ہیں، وہ جان گئے ہیں کہ ان کا اصل دشمن وہ ہے جو ان کے درمیان اختلاف کی خلیج پیدا کرنا چاہتا ہے۔ یہی شعور ان کا سب سے بڑا ہتھیار ہے، اور یہی امن ان کی سب سے بڑی جیت۔
گزشتہ دنوں کے واقعات نے پورے علاقے کو لرزا کر رکھ دیا۔ صبح کے وقت سی پی او چوک پر قاضی نثار احمد پر قاتلانہ حملہ کیا گیا۔ وہ معمولی زخمی ہوئے مگر ان کے محافظ بھی فائرنگ سے متاثر ہوئے۔ ابھی یہ خبر عوام کے دلوں میں خوف پیدا کر ہی رہی تھی کہ چند گھنٹوں بعد جج عنایت الرحمن کی گاڑی پر بھی فائرنگ ہوئی، جس پر درجنوں گولیاں برسائی گئیں۔ ایسے مناظر نے عوام کو غم و غصے اور بے چینی میں مبتلا کر دیا۔ لوگ گھروں سے باہر نکل آئے، احتجاجی مظاہرے شروع ہو گئے، اور سڑکوں پر ایک غیر معمولی کیفیت چھا گئی۔
اس وقت گلگت بلتستان کے بیشتر علاقوں میں احتجاجی مظاہرے جاری ہیں۔ شاہراہِ قراقرم بند ہے، کاروبار معطل ہیں، فضا سوگوار ہے، اور عوام کا ایک ہی مطالبہ ہے کہ جب تک دہشت گردوں کو گرفتار نہیں کیا جاتا، احتجاج ختم نہیں ہوگا۔ عوام کا یہ غصہ بجا ہے، کیونکہ یہ حملے صرف کسی ایک مسلک یا شخصیت پر نہیں بلکہ پورے علاقے کے امن پر حملے ہیں۔
تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ ہر احتجاج میں کچھ غیر ذمہ دار عناصر شامل ہو جاتے ہیں۔ چند نوجوانوں کی جانب سے تقاریر میں نامناسب زبان کا استعمال یا اسلحے کا مظاہرہ کسی بھی صورت میں قابلِ قبول نہیں۔ یہ جذباتی غلطیاں دشمن کے ایجنڈے کو تقویت دیتی ہیں۔ ہمیں سمجھنا ہوگا کہ ان واقعات کے پیچھے وہ طاقتیں کارفرما ہیں جو گلگت بلتستان کے امن، اتحاد اور ترقی کو ہضم نہیں کر سکتیں۔
فرقہ واریت کسی ایک فریق کے لیے نہیں بلکہ پورے معاشرے کے لیے زہرِ قاتل ہے۔ گلگت بلتستان کے دشمن بیرونی بھی ہیں اور اندرونی بھی۔ بیرونی وہ ہیں جو عالمی سیاست میں اس خطے کو غیر مستحکم دیکھنا چاہتے ہیں، جبکہ اندرونی وہ عناصر ہیں جو ذاتی مفادات یا مالی لالچ کے تحت ان سازشوں کا حصہ بن جاتے ہیں۔ یہ لوگ مذہب، مسلک اور قومیت کے نام پر نفرت پھیلاتے ہیں اور عوام کے جذبات سے کھیلتے ہیں۔
یہ خطہ ہمیشہ سے دنیا کی نظروں میں رہا ہے۔ بلند و بالا پہاڑ، معدنی ذخائر، اور سی پیک کی گزرگاہ ، یہ سب بین الاقوامی مفاد کی آنکھ میں چبھتے ہیں۔ اس لیے جب بھی کوئی بڑی سیاسی یا عسکری قیادت اس خطے کا دورہ کرتی ہے، چند دن بعد اچانک ایسے واقعات رونما ہوتے ہیں جو پورے امن کو ہلا دیتے ہیں۔ یہ سب محض اتفاق نہیں بلکہ منظم منصوبہ بندی کا حصہ ہیں۔
دشمن اب صرف بندوق سے نہیں لڑتا، وہ ہمارے ذہنوں میں نفرت کے بیج بوتا ہے۔ آج کی جنگ فکری اور نفسیاتی ہے۔ دشمن ہماری صفوں میں بیٹھ کر سوشل میڈیا کے ذریعے پروپیگنڈہ پھیلاتا ہے، نوجوانوں کے ذہنوں کو زہر آلود کرتا ہے، اور بھائی کو بھائی کے خلاف بھڑکاتا ہے۔ ایسے عناصر کا مقابلہ صرف ادارے نہیں کر سکتے، بلکہ باشعور عوام ہی ان کی سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔
اب وقت آ گیا ہے کہ ہم سب اپنی صفوں میں اتحاد پیدا کریں۔ ہر مسجد، ہر امام بارگاہ، اور ہر جماعت خانے سے امن، رواداری اور بھائی چارے کا پیغام جانا چاہیے۔ علما کرام کو چاہیے کہ جمعے کے خطبات میں برداشت، صبر اور اتحاد پر زور دیں۔ سیاسی و سماجی رہنماؤں کو بھی ذاتی مفادات سے بالاتر ہو کر خطے کے امن کے لیے مشترکہ بیانیہ تشکیل دینا ہوگا۔
ہمیں یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ دشمن صرف فائرنگ یا قتل سے نہیں بلکہ ہماری ثقافت، زبان اور روایات پر حملہ کر رہا ہے۔ وہ نوجوان نسل کو فحاشی، منشیات اور جھوٹے نعروں میں الجھا کر ان کے کردار کو کمزور کر رہا ہے۔ جب کوئی قوم اپنی تہذیب بھول جاتی ہے، تو دشمن کے لیے اسے غلام بنانا آسان ہو جاتا ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ گلگت بلتستان کے علما، دانشور، نوجوان اور سیاسی قیادت ایک پلیٹ فارم پر جمع ہوں۔ بین المسالک ہم آہنگی کے اجلاس باقاعدگی سے منعقد کیے جائیں۔ تعلیمی اداروں میں امن، برداشت اور قومی وحدت کے موضوعات شامل ہوں۔ سوشل میڈیا پر محبت، شعور اور اتحاد کی مہم چلائی جائے تاکہ جھوٹے پروپیگنڈوں کا توڑ ممکن ہو۔
یاد رکھیں، گلگت بلتستان کا امن صرف حکومت یا پولیس کی ذمہ داری نہیں بلکہ ہم سب کی مشترکہ ذمہ داری ہے۔ اگر ہم خود اپنے گھروں، محلے اور معاشرے میں امن کو مضبوط کریں، مشکوک عناصر پر نظر رکھیں، اور اپنے نوجوانوں کی فکری رہنمائی کریں تو کوئی طاقت اس خطے کے سکون کو برباد نہیں کر سکتی۔
اللہ تعالیٰ گلگت بلتستان کو ہر فتنہ، ہر سازش اور ہر نفرت سے محفوظ رکھے۔ ہمیں وہ بصیرت عطا کرے کہ ہم اپنے ایمان، ثقافت اور بھائی چارے کی حفاظت اسی اخلاص سے کریں جس سے ہمارے بزرگوں نے اس خطے کو امن کی علامت بنایا تھا۔
وسلام
تحریر: یاسر دانیال صابری
column in urdu, Gilgit baltistan news update