الیکشن نہیں سلیکشن ہے ، ایس ایم مرموی
یہ بات اب کسی سیاسی نعرے یا وقتی جذبات کی محتاج نہیں رہی بلکہ گزشتہ کئی دہائیوں کے اجتماعی تجربے اور مسلسل مشاہدے کا نچوڑ بن چکی ہے کہ گلگت بلتستان میں الیکشن نہیں ہوتے سلیکشن کی ریہرسل ہوتی ہے ایک ایسی ریہرسل جس کا اسکرپٹ کہیں اور لکھا جاتا ہے کردار کہیں اور چُنے جاتے ہیں اور اسٹیج پر صرف مقامی چہرے کھڑے کر دیے جاتے ہیں تاکہ تماشہ جمہوریت کا لگے گلگت بلتستان میں ووٹ ڈالنے کا عمل تو ہوتا ہے بیلٹ بکس بھی رکھے جاتے ہیں پولنگ اسٹیشنز پر قطاریں بھی لگتی ہیں مگر اصل فیصلہ عوام کے ہاتھ میں نہیں ہوتا فیصلے کی طاقت اُن ہاتھوں میں ہوتی ہے جو نہ اس دھرتی کی سرد راتیں جانتے ہیں نہ ان پہاڑوں کی خاموش چیخیں سنتے ہیں وفاق اور طاقت ور ادارے اپنے من پسند افراد کو یہاں تعینات کرتے ہیں منتخب نہیں ہونے دیتے یوں اسمبلی وجود میں آتی ہے مگر اختیار کے بغیر نمائندے آتے ہیں مگر نمائندگی کے بغیر۔
یہاں الیکشن دراصل ایک انتظامی عمل ہے سیاسی نہیں پہلے طے کیا جاتا ہے کہ کون جیتے گا پھر اس کے مطابق حالاتن قوانین اور ماحول ترتیب دیا جاتا ہے کبھی حلقہ بندیاں کبھی انتخابی شیڈول کبھی موسم کبھی ترقیاتی فنڈز کی بارش اور کبھی احتساب کے ڈنڈے سب کچھ ایک منصوبے کے تحت جو مزاحمت کرے اسے غدار شرپسند یا نااہل قرار دے کر میدان سے باہر کر دیا جاتا ہے اس سلیکشن کے بعد جو لوگ اسمبلیوں میں پہنچتے ہیں ان کی اولین وفاداری عوام نہیں بلکہ اُن قوتوں سے ہوتی ہے جنہوں نے انہیں وہاں تک پہنچایا ہوتا ہے یہی وجہ ہے کہ قانون سازی عوامی ضرورت کے مطابق نہیں بلکہ وفاقی مفاد کے مطابق ہوتی ہے ایسے قوانین بنائے جاتے ہیں جن سے وسائل پر کنٹرول مضبوط ہو زمین، معدنیات، بجلی اور پانی پر مقامی حق کمزور سے کمزور تر ہوتا جائے لوٹ مار ایک پالیسی بن جاتی ہے اور خاموشی کو حب الوطنی کا نام دے دیا جاتا ہے دلچسپ پہلو یہ ہے کہ ہر الیکشن سے پہلے جمہوریت کے گیت گائے جاتے ہیں وعدوں کے انبار لگتے ہیں آئینی حقوق کی بات ہوتی ہے صوبائی حیثیت کے خواب دکھائے جاتے ہیں مگر جیسے ہی سلیکٹڈ نمائندے اسمبلی میں پہنچتے ہیں یہ وعدے فائلوں میں دفن ہو جاتے ہیں پانچ سال بعد وہی چہرے یا ان جیسے نئے چہرے دوبارہ اسی ریہرسل کے لیے میدان میں اتار دیے جاتے ہیں اصل نقصان یہاں کے عوام کا نہیں اصل سانحہ یہاں کی سیاسی تربیت کا ہے جب نسلوں کو یہ سبق دیا جائے کہ ووٹ بے معنی ہے اور فیصلہ کہیں اور ہوتا ہے تو مایوسی جنم لیتی ہے شعور نہیں یہی مایوسی پھر سہولت کار پیدا کرتی ہے جو تھوڑے سے مفاد کے بدلے پورے خطے کا سودا کرنے میں عار محسوس نہیں کرتے جیسے چند دن پہلے امجد ایڈووکیٹ نے انکشاف کیا کہ خالد خورشید کو طاقتور اداروں کی مدد سے ہٹانے کی اب سوال یہ نہیں کہ یہ سب ہو رہا ہے یا نہیں یہ سب ہو چکا ہے اور ہو رہا ہے سوال یہ ہے کہ کب تک؟کیا گلگت بلتستان ہمیشہ تجربہ گاہ بنا رہے گا؟ کیا یہاں کے عوام صرف شماریاتی عدد رہیں گے؟ وقت آ گیا ہے کہ اس سلیکشن کے نظام کو اس کے اصل نام سے پکارا جائے اور اس کے خلاف اجتماعی شعور بیدار کیا جائے نوجوان نسل کو یہ سمجھنا ہوگا کہ جمہوریت صرف ووٹ ڈالنے کا نام نہیں بلکہ فیصلہ کرنے کا حق ہے جب تک اس حق کے لیے سوال نہیں اٹھایا جائے گا گریبان نہیں پکڑے جائیں گے اور جھوٹے بیانیوں کو رد نہیں کیا جائے گا، تب تک ہر الیکشن محض ایک نئی ریہرسل ہی رہے گا گلگت بلتستان کو نمائشی جمہوریت نہیں حقیقی اختیار چاہیے ورنہ تاریخ یہی لکھے گی کہ یہاں عوام تھے ووٹ بھی تھے مگر فیصلہ کہیں اور ہوتا تھا۔اب گلگت بلتستان کی محرومیوں اور وفاقی چوروں کی واردات پر تفصیل سے اس تحریر کو آگے بڑھاتے ہیں کہ لوگوں کو سمجھ آئے یہ سیاست کے نام پر منافقت ہورہی ہے
گلگت بلتستان کی برفیلی وادیوں میں جہاں پہاڑ صدیوں سے آسمان کا ماتھا چوم رہے ہیں اور دریا مسلسل آزادی کی نظمیں گنگناتے ہیں ایک ایسا دکھ پل رہا ہے جو موسموں کے بدلنے سے نہیں بدلتا یہ دکھ ہے وفاقی بے حسی کا وہ زنجیریں جو سات دہائیوں سے زیادہ عرصے سے اس خطے کے پاؤں میں پڑی ہیں اور ہر الیکشن کے موسم میں ذرا سی ڈھیلی ہو کر پھر پہلے سے زیادہ کس دی جاتی ہیں یہاں الیکشن کسی تہوار کا نام ہے بلکہ ایک مخصوص قافلے کی آمد کا اعلان کا نام ہے دور دراز شہروں سے سیاست کے وہ مسافر آتے ہیں جن کے ہاتھ عوام کی جیبوں میں اور نظریں اقتدار کی کرسی پر جمی ہوتی ہیں ان کے ساتھ جھوٹے وعدوں کی فائلیں نعروں کے بینر اور کرپشن کی آزمودہ ترکیبیں ہوتی ہیں یہ وہ لوگ ہیں جو مراعات کی مالا پہنے مقامی سہولت کاروں کو یوں چنتے ہیں جیسے درخت سے پکے ہوئے پھل توڑے جاتے ہیں اور اس ساری منڈی میں اس مٹی کے اصل وارث اس دھرتی کے بیٹے ہمیشہ کی طرح پیچھے دھکیل دیے جاتے ہیں ان کی آوازیں برف میں نہیں بلکہ نظام کی بے حسی میں دب جاتی ہیں سوال یہ نہیں کہ یہ سب کیوں ہو رہا ہے سوال یہ ہے کہ کب تک ہو گا؟ کیا ہر پانچ سال بعد یہی تماشا لگے گا؟ کیا ہر بار نئے وعدے پرانے چہرے اور وہی اندھیرا گلگت بلتستان کی عوام کا مقدر بنے گا یاد کیجیے چند ہفتے پہلے ایک وفاقی رہنما نے بڑے فخر سے فرمایا کہ بجلی کا مسئلہ حل کرنا ان کے لیے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے اصل میں اس نے یہ ہماری قوم کے ساتھ مذاق کیا ہے جگت کی ہے یا دوسرے لفظوں میں طنز کیا ہے کہ ہم جب تک چاہیں تمہیں اپنا غلام بنا کے رکھیں گے یہ جملہ نہیں تھا یہ گلگت بلتستان کے صبر کا امتحان تھا اگر یہ کھیل اتنا ہی آسان ہے تو دہائیوں سے بائیس گھنٹے کی لوڈشیڈنگ کیوں؟ یہ اندھیرے کیوں اس خطے کی پہچان بنے ہوئے ہیں؟ یہ سوال اگر نہ پوچھے گئے تو ہر نیا الیکشن ایک نیا دھوکہ بن کر آتا رہے گا سادہ لفظوں میں کہا جائے تو مسئلہ یہ نہیں کہ وعدے جھوٹے ہیں مسئلہ یہ ہے کہ ہم ہر بار انہیں سچ مان لیتے ہیں وفاق نے اس خطے کو ایک شکار گاہ سمجھ رکھا ہے جہاں انتخابی موسم میں شکار کھیلا جاتا ہے اور پھر پانچ سال کے لیے خاموشی طاری ہو جاتی ہے اس خاموشی میں صرف برف نہیں گرتی۔خواب بھی جم جاتے ہیں اب وقت ہے کہ گلگت بلتستان کی عوام خاص طور پر نوجوان نسل، اس کھیل کے قواعد بدلنے کا فیصلہ کرے نوجوان وہ امید ہیں جنہیں صرف نعرے نہیں شعور چاہیے انہیں زنجیروں کے ساتھ جینا نہیں انہیں توڑنا سکھانا ہوگا سوال پوچھنا ہوگا گریبان پکڑنا ہوگا اور ہر اس چہرے کو پہچاننا ہوگا جو اقتدار کے نام پر غلامی بیچتا ہے مزید اٹھتر سال؟ نہیں یہ فیصلہ اب پہاڑوں نے نہیں عوام نے کرنا ہے اگر آج بھی خاموشی اختیار کی گئی تو یہی برفیلے پہاڑ کل گواہی دیں گے کہ ایک قوم کے پاس جاگنے کا موقع تھا مگر اس نے سوتے رہنے کو ترجیح دی اور پھر غلامی کی یہ کہانی نسل در نسل یونہی چلتی رہے گی اور اس روش غلامی کا شکار ہمارہ تمام نسل پروان چڑھتی رہے گی ہم موجودہ صدی کے تمام لوگ ان نسلوں کے گنہگار اور مجرم ٹھہریں گے
column in urdu, election gilgit baltistan
اہم خبروںکی لنک ملاحظہ فرمائیں
عورت کی ہمت اور برداشت اللہ کی طرف سے عظیم نعمت، ایس ایم مرموی




