انصاف کا بحران اور گلگت بلتستان کے وکلا کا احتجاج، یاسر وزیر صابری
گلگت بلتستان، جو پاکستان کے نقشے پر ایک ایسی دھرتی ہے جس نے ہمیشہ ریاستی سلامتی اور دفاع کے لیے اپنی قربانیاں پیش کیں، آج خود انصاف سے محروم کھڑا ہے۔ پہاڑوں کے درمیان بسنے والا یہ خطہ جہاں بہادری اور وفاداری کی داستانیں لکھی جاتی ہیں، وہاں کے عوام آج انصاف کے دروازے پر دستک دے دے کر تھک چکے ہیں۔ وکلا کا جاری احتجاج اس خطے کے باسیوں کی خاموش چیخ ہے جو ریاست کے ایوانوں تک پہنچنے میں ناکام ہو رہی ہے۔ سوال یہ ہے کہ جب ریاست انصاف کی ضمانت نہ دے سکے تو پھر عوام کا ریاست پر اعتماد کیسے قائم رہے گا؟
وکلا کا سب سے پہلا اور بنیادی مطالبہ یہ ہے کہ گلگت بلتستان کی عدلیہ کو مکمل کیا جائے۔ صرف چیف جسٹس کی تقرری کافی نہیں۔ گزشتہ ڈیڑھ سال سے بینچ کے دیگر ججز کی تقرری التوا کا شکار ہے جس کی وجہ سے نو ہزار مقدمات زیرِ التوا ہیں۔ نو ہزار مقدمات صرف اعداد و شمار نہیں، بلکہ نو ہزار خاندانوں کی تکلیف، ان کے خوابوں کی بربادی اور انصاف کے لیے ان کی بے بسی کی کہانی ہے۔ انصاف کی تاخیر انصاف کی نفی کے مترادف ہے، اور یہی نفی گلگت بلتستان میں کھلے عام دیکھی جا سکتی ہے۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ وکلا کا احتجاج محض ذاتی مفادات یا نوکریوں کا مطالبہ نہیں، بلکہ یہ پورے معاشرتی ڈھانچے کے ٹوٹنے کی علامت ہے۔ جب ججز ہی موجود نہیں ہوں گے تو عدالتوں کے دروازے کھولنے کا مطلب کیا ہے؟ کیا یہ انصاف کے نام پر ایک ڈھونگ نہیں؟ عوام جب صبح سے شام تک عدالتوں کے چکر لگا کر مایوس لوٹتے ہیں تو ان کے دل میں یہ سوال جاگتا ہے کہ کیا وہ اس ریاست کے برابر شہری ہیں یا محض تماشائی؟
وکلا کا دوسرا بڑا اعتراض گلگت بلتستان لینڈ ریفرنڈم بل پر ہے۔ یہ بل عوامی مفاد کو شامل کیے بغیر بنایا گیا ہے۔ زمین عوام کی ہے، وسائل عوام کے ہیں اور مستقبل بھی انہی کا ہے، لیکن ان کے فیصلے بند کمروں میں کر لیے جاتے ہیں۔ اگر عوام کی رائے کو شامل نہیں کیا جائے گا تو یہ بل ایک استحصالی ہتھیار سے زیادہ کچھ نہیں بنے گا۔ عوام کے لیے سب سے بڑا خدشہ یہی ہے کہ ان کے وسائل اور زمین پر کوئی دوسرا قابض ہو جائے گا اور ان کی آواز کو ہمیشہ کے لیے خاموش کر دیا جائے گا۔
وکلا نے یہ بھی مطالبہ کیا ہے کہ سول سیشن کورٹ اور رجسٹرارز کی خالی آسامیوں کو فوری طور پر مشتہر کیا جائے۔ یہ عہدے صرف کرسیوں پر بیٹھنے کے لیے نہیں، بلکہ عدالتی نظام کو چلانے کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں۔ جب رجسٹرار ہی نہیں ہوں گے تو مقدمات کی فائلیں کون سنبھالے گا؟ جب سیشن جج موجود نہیں ہوں گے تو انصاف کے فیصلے کون کرے گا؟
گلگت بلتستان میں فیملی کورٹ، لیبر کورٹ اور کنزیومر کورٹ کا قیام نہایت ضروری ہے۔ گھریلو مسائل روز بروز بڑھ رہے ہیں، ملازمین اور مالکان کے درمیان جھگڑے جنم لے رہے ہیں، اور صارفین کو آئے دن دھوکہ دہی اور استحصال کا سامنا ہے، مگر ان کے لیے کوئی مؤثر فورم موجود نہیں۔ وکلا کا یہ مطالبہ دراصل معاشرتی مسائل کے بڑھتے ہوئے طوفان کو روکنے کی کوشش ہے۔ اگر یہ عدالتیں قائم ہو جائیں تو نہ صرف عوام کو فوری انصاف ملے گا بلکہ معاشرے میں اعتماد اور سکون بھی بحال ہوگا۔
وکلا نے ایک اور اہم نکتہ اٹھایا ہے کہ چیف جسٹس ریٹائرڈ نہیں ہونا چاہیے۔ یہ مطالبہ ذاتی نہیں بلکہ اصولی ہے۔ جب ریٹائرڈ ججز کو دوبارہ عہدے دیے جاتے ہیں تو عدلیہ کی شفافیت پر سوال اٹھتا ہے۔ نوجوان اور اہل ججز کے لیے مواقع ختم ہو جاتے ہیں اور نظام جمود کا شکار ہو جاتا ہے۔ گلگت بلتستان میں جہاں آئینی حیثیت اب بھی غیر واضح ہے، وہاں عدلیہ کی ساکھ پر کوئی دھبہ لگنا عوام کے اعتماد کو مزید کمزور کر دے گا۔
یہ تمام مطالبات اگر غور سے دیکھے جائیں تو یہ صرف وکلا کے نہیں بلکہ عوام کے دل کی آواز ہیں۔ گلگت بلتستان کے عوام وہی سہولتیں چاہتے ہیں جو پاکستان کے دیگر صوبوں کے عوام کو میسر ہیں۔ کیا یہ ان کا حق نہیں کہ ان کے مقدمات وقت پر نمٹائے جائیں؟ کیا یہ ان کا حق نہیں کہ ان کی زمینوں کے فیصلے ان کی مرضی سے ہوں؟ کیا یہ ان کا حق نہیں کہ ان کے روزمرہ مسائل کے حل کے لیے مخصوص عدالتیں قائم کی جائیں؟
ریاست کو یہ سمجھنا ہوگا کہ احتجاج کو دبانے یا نظرانداز کرنے سے مسائل ختم نہیں ہوں گے بلکہ مزید شدت اختیار کریں گے۔ گلگت بلتستان کے عوام پہلے ہی احساسِ محرومی کا شکار ہیں۔ اگر عدلیہ کو بھی کمزور کر دیا گیا تو یہ محرومی غصے میں بدلے گی اور یہ غصہ ریاست کے لیے خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔
اب وقت آگیا ہے کہ وفاق اور مقامی حکومت مل کر عدالتی ڈھانچے کو مکمل کریں، ججز کی تعیناتی کریں، خالی آسامیوں کو پر کریں اور نئی عدالتوں کا قیام یقینی بنائیں۔ لینڈ ریفرنڈم بل میں عوامی مفاد کو شامل کیا جائے تاکہ عوام کا اعتماد بحال ہو۔ چیف جسٹس کی تعیناتی میں اصولوں کو مدنظر رکھا جائے تاکہ عدلیہ کی ساکھ مضبوط ہو۔
انصاف کسی معاشرے کے لیے محض قانونی اصطلاح نہیں بلکہ بقا کی ضمانت ہے۔ اگر انصاف کا چراغ گل کر دیا جائے تو معاشرے میں اندھیرا پھیل جاتا ہے، اور یہ اندھیرا قوموں کو تباہ کر دیتا ہے۔ گلگت بلتستان کے عوام انصاف کے طلبگار ہیں، ان کی آواز کو دبانے کے بجائے سنا جائے۔ یہ وقت کا تقاضا ہے، یہ عوام کا حق ہے اور یہ ریاست کی ذمہ داری ہے۔