بلتستان اور خزاں ، بلقیس آخونزادی اسوہ گرلز کالج اسکردو
پہاڑوں کے دامن میں چھپا ہوا یہ خوبصورت علاقہ جس کو لوگ بلتستان کے نام سے جانتے ہیں۔ یوں تو خدا تعالیٰ نے اس سرزمین کو بے پناہ حسن سے نوازا ہے، ہر طرف سرسبز وسیع میدان ہیں جن میں ہزاروں اقسام کے پھول مسکراتے نظر آتے ہیں۔ بڑے بڑے پہاڑ ہیں جنہیں سرسبز دیکھ کر دل کبھی بھرنے کا نام ہی نہیں لیتا۔ جی چاہتا ہے، بقول جناب پروفیسر حشمت کمال الہامی:
پہاڑی سلسلے چاروں طرف ہیں، بیچ میں ہم ہیں
مثال گوہرنایاب، ہم پتھر میں رہتے ہیں
اس خوبصورت علاقے کے حسن سے لطف اندوز ہونے کے لیے نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا کے مختلف ملکوں سے بھی لوگ یہاں آ کر قدرت کے ان حسین مناظر سے محظوظ ہوتے ہیں۔ مارچ سے لے کر ستمبر کے آخر تک اس علاقے کے مناظر قابلِ دید ہوتے ہیں، مگر جوں ہی ستمبر شروع ہوتا ہے، یہ علاقہ اپنے قدرتی حسن کو آہستہ آہستہ کھونے لگتا ہے اور خزاں کا موسم شروع ہو جاتا ہے۔ خزاں کی آمد کے ساتھ ہی پرندے اُداس نظر آنے لگتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ اب ان میں جینے کی حسرت ہی نہیں رہی۔ پرندے صبح صبح فریاد کرنے لگتے ہیں:
ہائے! پھول مرجھا گئے، کلیوں نے اپنے چہرے چھپا لیے، چمن ویران ہو گیا اور ہر طرف سوگ کا ایک عجیب سماں برپا ہو گیا۔
فکر نہ کریں، یہ سب نظامِ فطرت ہے۔ کسی کی کیا مجال کہ اس نظام میں دخل اندازی کرے؟ زندگی ختم نہیں ہوتی، بلکہ خدا نے ہر موسم کو قدرتی حسن سے نوازا ہے۔
جب خزاں میں درختوں کے پتے اپنی اپنی ٹہنیوں سے روٹھ کر خود کو زمین پر گرانے لگتے ہیں تو ایسا لگتا ہے کہ آسمان سے سونے چاندی کی بارش ہو رہی ہو۔ زمین ایسی نظر آتی ہے جیسے اس پر سونے چاندی کے شیریں قالین بچھا دیے گئے ہوں۔خزاں کے ساتھ ساتھ سردی بھی اس علاقے کو ایسے جکڑ لیتی ہے جیسے کسی جسم سے روح نکل گئی ہو اور صرف مردہ جسم باقی رہ گیا ہو۔ لوگوں کی بڑی تعداد گرم کپڑے خریدنے کے لیے دکانوں کا رخ کرتی ہے اور سردی سے مقابلہ کرنے کی ہر ممکن کوشش کرتی نظر آتی ہے۔
خدا نے اس علاقے کو بہت سے قیمتی خشک پھلوں سے بھی نوازا ہے، جنہیں کھا کر لوگ خزاں اور سرما کی بے رحمی سے بے خبر ہو جاتے ہیں۔ یہاں کے خشک پھلوں کو نہ صرف یہاں کے لوگ خود استعمال کرتے ہیں، بلکہ مہمانوں اور عزیزوں کو بطورِ سوغات بھی پیش کرتے ہیں۔خشک پھلوں کو یہاں کے لوگ خصوصی طور پر موسمِ خزاں اور سرما کے لیے ذخیرہ کر کے رکھتے ہیں۔ ان پھلوں کے استعمال سے انسانی جسم چست اور توانا رہتا ہے اور سردی سے مقابلہ کرنے کی قدرتی طاقت پیدا ہوتی ہے۔ ان پھلوں کو بلتی زبان میں فرینگ، سترگا، سر سینگ اور او سے فرہنگ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ یہ نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا کے دوسرے ملکوں میں بھی بے حد مقبول ہیں۔ یہاں کے لوگوں کا کہنا ہے کہ ان پھلوں کو کھانے سے انسانی جسم اور روح کو تازگی ملتی ہے اور انسان خود کو تروتازہ محسوس کرنے لگتا ہے۔نظامِ خداوندی کبھی نہیں رکتا۔ دسمبر کے آخری ایام میں قدرت اس علاقے کو اپنی سفید چادر میں ڈھانپ لیتی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ اس علاقے نے خزاں کی سنگدلی سے نا اُمید ہو کر اپنا منہ چھپا لیا ہے۔ماضی میں یہاں خوب برفباری ہوا کرتی تھی، مگر ماحول کی تبدیلی اور بڑھتی ہوئی آبادی کی وجہ سے اب ماضی کے نسبت قدرے کم برفباری ہوتی ہے۔ مگر یہاں کے لوگ، چاہے جو بھی ہوں یا جیسے بھی حالات ہوں، اس برفباری سے لطف اندوز ہونے کو اپنی علاقائی ثقافتی رسم سمجھتے ہیں۔
قدرت لوگوں کو اپنی گہما گہمی میں یوں مصروف رکھتی ہے کہ انہیں پتہ ہی نہیں چلتا کہ وہ کب پھر سے بہار کے نور سے سانس لینے لگتے ہیں۔ اور مختلف پھول برف کی چادر سے باہر نکل آتے ہیں۔ پرندے اپنی خوبصورت آوازوں سے بہار کو خوش آمدید کہتے نظر آتے ہیں، اور بالآخر بہار پھر سے سردی پر غالب آ جاتی ہے اور ایک بار پھر علاقہ اپنے قدرتی حسن سے مالا مال نظر آنے لگتا ہے۔ پھول مسکرانے لگتے ہیں، چمن پھر سے آباد ہو جاتا ہے اور لوگ ایک بار پھر اس علاقے کی خوبصورتی میں کھو جاتے ہیں۔ یوں محسوس ہوتا ہے جیسے خزاں کبھی گزری ہی نہیں۔
خدا ہم سب کو اور اس خوبصورت علاقے کو ہمیشہ اپنی مقتدر امان میں رکھے۔ آمین
انقلاب زندہ دل قومیں لاتی ہیں ، ایس ایم مرموی
ذہنی غلامی، آمینہ یونس اسکردو بلتستان
کراچی کے مختلف علاقوں میں زلزلے کے جھٹکے، لوگوںمیںخوف ہراس،
column in urdu, autumn in gilgit baltistan