وادی کونیس کی تعلیمی صورتحال ایک تحقیقی جائزے ، محمد سکندر کونیسی
کسی بھی قوم کا مستقبل تعلیم کی بنیاد پر منحصر ہوتا ہے، تعلیم نہ صرف فرد کی فکری اور اخلاقی تربیت کرتی ہے بلکہ یہی عنصر کسی ملک اور قوم کو ترقی کی راہ پر گامزن کرتا ہے۔ ایک مہذب اور ترقی یافتہ ریاست کی اولین ذمہ داری یہ ہوتی ہے کہ وہ اپنے شہریوں کو معیاری تعلیم، بہتر تعلیمی ماحول، اور مضبوط انفراسٹرکچر فراہم کرے تاکہ آنے والی نسلیں ملک کی تعمیر و ترقی میں مؤثر کردار ادا کر سکیں۔ اسی مقصد کے لیے حکومت مختلف قوانین کے تحت تعلیمی ادارے قائم کرتی ہے اور متعلقہ اداروں کو یہ ذمہ داری سونپی جاتی ہے کہ وہ ہر صوبے اور علاقے میں تعلیمی مسائل، چیلنجز، اور ضروریات کا جائزہ لے کر ان کا حل تلاش کریں۔ تعلیم اور سماجی انصاف کا تعلق انتہائی گہرا ہے۔ جن معاشروں میں تعلیم کی یکساں دستیابی ہوتی ہے، وہاں سماجی و اقتصادی عدم مساوات کم ہوتی ہے۔ تعلیم یافتہ معاشرے میں جرائم کی شرح کم، شہری شعور زیادہ، اور جمہوری اقدار مضبوط ہوتی ہیں۔ لیکن جب کسی علاقے کے باشندے تعلیم سے محروم رہ جاتے ہیں تو وہ نہ صرف اپنے حقوق سے آگاہ نہیں رہتے بلکہ قومی ترقی کے دھارے سے بھی کٹ جاتے ہیں تعلیم ہی وہ واحد ذریعہ ہے جو انسان کو شعور، آگاہی، اور صلاحیت کی دولت سے آراستہ کرتی ہے اور اسے معاشرے میں معزز مقام دلاتی ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے ملک میں اکثر ایسا دیکھنے میں آتا ہے کہ تعلیمی ترقی سے متعلق کیے گئے وعدے صرف بیانات کی حد تک محدود رہ جاتے ہیں اور عملی اقدامات نہ ہونے کے برابر ہوتے ہیں۔ اس کی واضح مثال گلگت بلتستان کے ضلع گانچھے میں واقع خوبصورت مگر پسماندہ گاؤں کونیس ہے، جو سکردو بلتستان سے تقریباً دو گھنٹہ کے فاصلے پر دریائے سندھ کے کنارے واقع ہے۔ قدرتی حسن کے اعتبار سے یہ گاؤں گلگت بلتستان کے خوبصورت علاقوں میں شمار ہوتا ہے، مگر یہاں کے باسی بنیادی سہولیات سے محروم زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ یہ علاقہ اپنی جغرافیائی وسعت اور قدرتی خوبصورتی کے باوجود ترقی کی دوڑ میں بہت پیچھے رہ گیا ہے۔ گاؤں کونیس میں تقریباً تین سو کے قریب گھرانے آباد ہیں اور اس پسماندہ گاؤں کے لوگ نہایت محنتی، محب وطن، اور باہمت ہیں۔ تقریباً ہر گھر میں سے ایک یا دو افراد پاک فوج میں خدمات سرانجام دے رہے ہیں، اور بہت سے لوگ روزگار کے سلسلے میں بیرون ملک مقیم ہیں، یہ گاؤں قوم کی خدمت میں کس قدر پیش پیش ہیں، لیکن ان سب کے باوجود ان لوگوں کے لیے اپنی بنیادی حقوق تک میسر نہیں ہیں۔ یہ ایک ستم ظریفی ہے کہ جو لوگ ملک کی سرحدوں کی حفاظت کرتے ہیں، ان کی حالت ابھی بھی انتہائی تشویشناک ہے۔ آج کے جدید دور میں بھی گاؤں کے لوگوں کے لیے صاف پانی، صحت، تعلیم، بجلی، سڑک، اور نیٹ ورک جیسی بنیادی سہولیات سے محرومی ہے۔ پورے گاؤں میں صحت کی سہولت کے نام پر صرف ایک چھوٹی سی ڈسپنسری موجود ہے، جہاں بنیادی ادویات تک دستیاب نہیں ہوتی، جس کے باعث معمولی بیماری بھی سنگین مسئلہ بن جاتی ہے۔ حاملہ خواتین کو زچگی کی سہولیات کے لیے کئی گھنٹوں کا سفر طے کرنا پڑتا ہے، جو اکثر خطرناک ثابت ہوتا ہے۔ موسمی بیماریوں کی شرح بلند ہے، مگر علاج کی سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے یہ مسائل مسلسل بڑھتے جا رہے ہیں۔ سردیوں میں نزلہ، زکام، اور نمونیا جیسی بیماریاں عام ہو جاتی ہیں، اور طبی امداد کی عدم دستیابی کی وجہ سے بچوں کی صحت شدید متاثر ہوتی ہے اور اس ساتھ تعلیم کے شعبے کی صورتحال اس سے بھی زیادہ افسوسناک ہے۔ ایلیمنٹری اسکول میں تقریباً دو سو سے ڈھائی سو طلبہ کے لیے صرف دو سرکاری اساتذہ موجود ہیں، جو کہ انتہائی ناکافی ہیں۔ عالمی معیار کے مطابق ایک استاد کے لیے تیس سے چالیس طلبہ کا تناسب مناسب سمجھا جاتا ہے، مگر یہاں ایک استاد کو سو سے زیادہ بچوں کی تعلیم و تربیت کی ذمہ داری دی گئی ہے۔ اس صورتحال میں نہ تو استاد ہر بچے پر انفرادی توجہ دے سکتا ہے اور نہ ہی مؤثر تدریس ممکن ہے۔ گاؤں کی طلبہ تنظیم نے اپنی مدد آپ کے تحت تین اساتذہ مقرر کیے ہیں، مگر وسائل کی کمی کے باعث وہ بھی مکمل طور پر اہل اور تربیت یافتہ نہیں ہیں،یہ رضاکارانہ کوشش قابل تعریف ہے، مگر یہ حکومت کی ذمہ داری کا متبادل نہیں بن سکتی۔ گاؤں کا ہائی سکو ل، جہاں سائنس کے مضامین پڑھائے جاتے ہیں، بنیادی سہولیات سے محروم ہے۔ نہ سائنسی لیبارٹری موجود ہے، نہ کمپیوٹر لیب، نہ لائبریری، اور نہ ہی ضروری تدریسی سامان۔ جدید تعلیم میں سائنسی اور تکنیکی مہارتیں لازمی حصہ ہیں، لیکن طلبہ صرف نظریاتی طور پر سائنس پڑھنے پر مجبور ہیں اور عملی تجربات سے مکمل طور پر محروم رہتے ہیں اور کلاس رومز میں معیاری کرسیاں، وائٹ بورڈ، صاف پانی، اور مناسب تعلیمی ماحول کی عدم موجودگی نے گزشتہ کئی سالوں سے تعلیم میں رکاوٹ بن رکھی ہے۔ سردیوں میں شدید ٹھنڈ کے باعث کلاس رومز میں ہیٹنگ کا کوئی انتظام نہ ہونے سے بچے جسمانی تکلیف کا شکار رہتے ہیں اور حاضری کی شرح بھی کم ہو جاتی ہے، جس سے تعلیمی سرگرمیاں متاثر ہوتی ہیں۔ سڑکوں کی خستہ حالی اور بجلی کی لوڈشیڈنگ نے گاؤں کی زندگی کو مزید مشکل بنا دیا ہے۔ بجلی کی طویل بندش کی وجہ سے طلبہ رات کو پڑھائی نہیں کر پاتے، اور ان کی تیاری متاثر ہوتی ہے اور آج کی ترقی یافتہ دنیا میں بھی کونیس گاؤں میں موبائل یا انٹرنیٹ نیٹ ورک کا ایک سگنل تک دستیاب نہیں ہے، جو کہ ایک اہم مسئلہ ہے۔ جب دنیا بھر میں آن لائن تعلیم، ڈیجیٹل لائبریریاں، اور ای لرننگ کا دور ہے، یہاں کے بچے اس انقلاب سے کوسوں دور ہیں۔ وہ یوٹیوب پر تعلیمی ویڈیوز نہیں دیکھ سکتے، نہ ہی آن لائن کورسز کر سکتے ہیں، اور نہ ہی گوگل جیسے وسائل سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ یہ ڈیجیٹل تفریق انہیں قومی اور بین الاقوامی سطح پر مسابقت سے محروم کر رہی ہے۔ دوسرے علاقوں کے طلبہ آن لائن مواد، تعلیمی ایپلیکیشنز، اور ڈیجیٹل وسائل سے فایدہ اٹھا رہے ہیں، جبکہ یہاں کے بچے صرف کتابوں تک محدود ہیں، اور وہ بھی ناکافی تعداد میں اور ساتھ کونیس گاؤں میں دو سال پہلے آنے والے شدید سیلاب نے تقریباً تیس سے پینتیس گھرانوں کو مکمل طور پر تباہ کر دیا، جس سے ان کا سارا سرمایہ ضائع ہو گیا۔ سیلاب نے نہ صرف گھروں کو نقصان پہنچایا بلکہ زرعی زمینوں کو بھی بہا لے گیا، جو ان خاندانوں کی آمدن کا واحد ذریعہ تھا۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ آج تک ان متاثرہ خاندانوں کے لیے کوئی مؤثر بحالی منصوبہ مکمل نہیں ہو سکا، اور وہ اب بھی شدید مشکلات کا سامنا کر رہے ہیں۔ بہت سے خاندان قرضوں کے بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں اور بچوں کی تعلیم پر خرچ کرنے کی استطاعت کھو چکے ہیں۔ کچھ خاندانوں نے اپنے بچوں کو اسکول سے نکال لیا ہے، اور انہیں کام پر لگا دیا ہے تاکہ گھر کا خرچ چل سکے، اور ان مسائل میں سب سے زیادہ متاثر ہونے والا شعبہ تعلیم ہے، کیونکہ غربت اور سہولیات کی کمی کے باعث بچوں کا تعلیمی مستقبل خطرے میں پڑ چکا ہے۔ لڑکیوں کی تعلیم خاص طور پر متاثر ہو رہی ہے، کیونکہ معاشی تنگی میں خاندان سب سے پہلے لڑکیوں کی تعلیم پر سمجھوتہ کرتے ہیں۔ یہ صنفی امتیاز نہ صرف انفرادی سطح پر نقصان دہ ہے بلکہ پوری قوم کی ترقی میں رکاوٹ بنتا ہے۔ ایک تعلیم یافتہ عورت نہ صرف اپنی زندگی بہتر بناتی ہے بلکہ آنے والی نسل کی تعلیم و تربیت کی بھی ضامن ہوتی ہے،اور تعلیم یافتہ مائیں اپنے بچوں کی بہتر پرورش کرتی ہیں، ان میں تعلیم کی اہمیت اجاگر کرتی ہیں، اور خاندان کے معیار زندگی کو بلند کرتی ہیں۔ گاؤں میں نوجوانوں کے لیے کیریئر گائیڈنس یا مشاورت کا کوئی نظام موجود نہیں۔ طلبہ نہیں جانتے کہ تعلیم مکمل کرنے کے بعد کیا کریں، کس شعبے میں جائیں، یا کن مہارتوں کی ضرورت ہے۔ پیشہ ورانہ تربیت کی سہولیات نہ ہونے کے باعث بہت سے نوجوان بے روزگار رہتے ہیں یا غیر ہنر مند مزدوری پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ اگر انہیں مناسب رہنمائی اور تربیت مل جائے تو وہ اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لا کر اپنی زندگی بہتر بنا سکتے ہیں اور معاشرے کی ترقی میں بھی حصہ ڈال سکتے ہیں۔ الیکٹریشن، پلمبر، کارپینٹر، اور کمپیوٹر آپریٹر جیسے ہنر سیکھنے کے لیے کوئی ادارہ موجود نہیں، جس کی وجہ سے نوجوان اپنی صلاحیتوں کو ضائع کر دیتے ہیں۔ اور مقامی لوگ اپنی استطاعت بھر کوشش کر رہے ہیں کہ اپنے بچوں کو تعلیم دلائیں، مگر حکومتی سطح پر توجہ نہ ملنے کی وجہ سے ان کی تمام کوششیں ناکافی ثابت ہو رہی ہیں۔ کمیونٹی نے خود اپنے وسائل سے کچھ اساتذہ مقرر کیے ہیں، مگر یہ طویل مدتی حل نہیں ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ ان لوگوں کی محنت اور عزم کی قدر کرے اور ان کے ساتھ مل کر ایک مضبوط تعلیمی نظام قائم کرے۔ آخر میں، حکومت وقت، محکمہ تعلیم، متعلقہ اداروں، اور منتخب نمائندوں سے پرزور مطالبہ کیا جاتا ہے کہ کونیس گاؤں کے تعلیمی مسائل کو فوری طور پر حل کیا جائے۔ اساتذہ کی کمی پوری کی جائے، اسکولوں کے انفراسٹرکچر کو بہتر بنایا جائے، اور صحت، صاف پانی، بجلی، سڑک، اور نیٹ ورک جیسی بنیادی سہولیات فراہم کی جائیں۔ محکمہ تعلیم کو چاہیے کہ وہ باقاعدہ طور پر اساتذہ کی کارکردگی کا جائزہ لے،اور اساتذہ کے لیے تربیتی پروگرام منعقد کرے، اور محکمہ صحت کو چاہیے کہ کونیس گاؤں کی ڈسپنسری کو اپ گریڈ کرے۔اور نیٹ ورک کی فراہمی کے لیے متعلقہ ٹیلی کام اور اس سی او کمپنیوں کو احکامات جاری کیے جائیں۔ اس کے ساتھ ساتھ مقامی اور غیر سرکاری تنظیموں سے بھی اپیل ہے کہ وہ اس پسماندہ گاؤں کی ترقی میں اپنا کردار ادا کریں۔ وظائف کا نظام قائم کیا جائے تاکہ ذہین لیکن غریب طلبہ اعلیٰ تعلیم حاصل کر سکیں۔ کمیونٹی کی سطح پر شعور اجاگر کیا جائے کہ تعلیم، خاص طور پر لڑکیوں کی تعلیم کتنی اہم ہے۔ سماجی رضاکار اور تعلیمی کارکنوں کی ضرورت ہے جو اس گاؤں میں جا کر تعلیمی و سماجی شعور بیدار کریں تاکہ یہاں کے بچے بھی ایک روشن اور محفوظ مستقبل کی طرف بڑھ سکیں۔
column in urdu, Analytical Review of the Educational Situation
لائیو پروگرام کے دوران مداخلت، احسن اقبال نے وضاحت پیش کردی
انتخاب صالح قیادت، دین اور سیاست، مولانا اختر شگری
سلیم خان : جامع الصفات شخصیت، پارس کیانی ساہیوال، پاکستان




