IMG 20251008 WA0081 0

گلگت بلتستان غذر کی بیٹی عائشہ ایاز: اصل ہیرا جس نے پاکستان کا نام روشن کیا، یاسر دانیال صابری
گلگت بلتستان کے ضلع غذر کی مٹی ہمیشہ غیرت، حوصلے اور بہادری کے رنگوں سے رنگی رہی ہے۔ اسی مٹی سے ایک اور ہیرا ابھرا ہے ۔ایک ایسی بیٹی جس نے کم عمری کے باوجود اپنے عزم، جذبے اور غیر معمولی صلاحیت سے پاکستان کا پرچم دنیا کے سامنے بلند کیا۔
یہ ہے عائشہ ایاز، پاکستان کی کم عمر ترین تائیکوانڈو کھلاڑی، جس نے عالمی سطح پر مقابلہ جیت کر یہ ثابت کر دیا کہ اصل سرمایہ سونا، چاندی یا زمین نہیں بلکہ وہ نوجوان ہیں جو اپنے ہنر سے ملک و قوم کی عزت بڑھاتے ہیں۔
ہم اکثر سوشل میڈیا پر صرف “مبارک ہو” لکھ کر سمجھ لیتے ہیں کہ ہم نے فرض ادا کر دیا، مگر سچ تو یہ ہے کہ ہم نے کبھی اپنے اصل ہیروں کو پہچانا ہی نہیں۔ ہمارے لیے “ہیرا” وہ نہیں ہونا چاہیے جو جائیداد یا بنک بیلنس رکھتا ہے، بلکہ وہ ہونا چاہیے جو اپنے پسینے، محنت اور صلاحیت سے پاکستان کے وقار کو بڑھاتا ہے۔ عائشہ جیسی بیٹیاں ہمارے معاشرے کی اصل پہچان اور اصل سرمایہ ہیں۔
عائشہ نے اپنی کامیابی سے یہ ثابت کیا کہ گلگت بلتستان کی بیٹیاں صرف پہاڑوں کے درمیان نہیں بلکہ دنیا کے میدانوں میں بھی جگمگا سکتی ہیں۔ وہ لڑکیاں جو وسائل کی کمی، حالات کی سختی اور معاشرتی بندشوں کے باوجود اپنے خوابوں کے لیے لڑتی ہیں وہی قوموں کا فخر بن جاتی ہیں۔
یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ عائشہ ایاز صرف ایک کھلاڑی نہیں بلکہ ایک پیغام ہیں۔ ایک پیغام اُن تمام بچیوں کے لیے جو خواب دیکھنے سے ڈرتی ہیں، ایک پیغام اُن والدین کے لیے جو اپنی بیٹیوں کو آگے بڑھنے سے روکتے ہیں، اور ایک پیغام اُس نظام کے لیے جو شمالی علاقوں کے ٹیلنٹ کو نظر انداز کرتا ہے۔
عائشہ ایاز نے عالمی مقابلے میں پاکستان کے لیے میڈل جیت کر یہ ثابت کیا کہ گلگت بلتستان کی بیٹیاں صرف پاکستان کی بیٹیاں نہیں بلکہ پاکستان کا فخر ہیں۔ ان کی کامیابی صرف ذاتی نہیں بلکہ ایک اجتماعی فخر کی علامت ہے۔ ان کے اس کارنامے پر نہ صرف غذر بلکہ پورا گلگت بلتستان اور پاکستان نازاں ہے۔
ایسے کھلاڑیوں کو صرف مبارکباد کافی نہیں، بلکہ ان کی حوصلہ افزائی، مالی معاونت، اور قومی سطح پر نمائندگی ضروری ہے۔ جب تک ہم اپنے حقیقی ہیروں کو پہچان کر ان کے لیے راہیں ہموار نہیں کریں گے، ہم کبھی ترقی یافتہ قوم نہیں بن سکتے۔
حکومتِ پاکستان، پاکستان نیوی، کھیلوں کے ادارے، اور مقامی انتظامیہ سب کو چاہیے کہ عائشہ ایاز جیسے اثاثوں کی حفاظت کریں، ان کے لیے مزید مواقع پیدا کریں، تاکہ یہ باصلاحیت بیٹیاں آنے والے کل میں اولمپکس جیسے عالمی مقابلوں میں بھی پاکستان کا جھنڈا بلند کر سکیں۔
عائشہ نے اپنی کامیابی کے بعد کہا تھا
میری کامیابی میرے ملک، میرے والدین، اور گلگت بلتستان کے تمام لوگوں کے لیے ہے۔ میں چاہتی ہوں کہ پاکستان کی ہر بیٹی اپنے خوابوں کے لیے محنت کرے۔ ہم کسی سے کم نہیں۔”
پاکستانی خواتین — خاص طور پر شمالی علاقہ جات کی بیٹیاں — اگر موقع پائیں تو ہر میدان میں نمایاں ہو سکتی ہیں۔
پاکستان نیوی میں شامل ہونا ہو یا بین الاقوامی اسٹیج پر ملک کا نام روشن کرنا — عائشہ جیسے نوجوان یہ ثابت کر رہے ہیں کہ ہمارا مستقبل محفوظ ہاتھوں میں ہے۔ ایسے نوجوان ہی پاکستان کی اصل طاقت ہیں، اصل سرمایہ ہیں، اور یہی وہ ہیروں جیسے لوگ ہیں جن پر قوم کو ناز ہے۔
ہمیں چاہیے کہ ہم ان بیٹیوں کے جذبے کو سلام کریں، صرف سوشل میڈیا پر نہیں بلکہ عمل میں، پالیسی میں، اور نظام میں۔ عائشہ ایاز صرف ایک نام نہیں ۔ وہ ایک نظریہ ہے، ایک حوصلہ ہے، ایک تحریک ہے جو آنے والی نسلوں کو یہ سکھا رہی ہے کہ خواب دیکھنا گناہ نہیں، ہار ماننا گناہ ہے۔
یہی بیٹیاں ہمارے وطن کا روشن چہرہ ہیں — اور یہی وہ ہیریں ہیں جو واقعی چمکتے ہیں، کیونکہ ان کی چمک دولت یا طاقت سے نہیں بلکہ محنت، ایمان، اور حب الوطنی سےہے۔
column-in-urdu-70

Thank you for reading this post, don't forget to subscribe!
50% LikesVS
50% Dislikes

گلگت بلتستان غذر کی بیٹی عائشہ ایاز، اصل ہیرا جس نے پاکستان کا نام روشن کیا، ، یاسر دانیال صابری

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں