مطالبات کی فہرست! پروفیسر قیصر عباس
مطالبات کی فہرست!
وہ لوگ جو سیاست کی صرف الف ب سے واقفیت رکھتے ہیں وہ بھی اس بات کو جانتے ہیں کہ موجودہ سیاسی بندوبست میں سب سے زیادہ فائدے میں پیپلز پارٹی رہی ہے کیونکہ مسلم لیگ نون اور تحریک انصاف (سنی اتحاد کونسل ) بالترتیب پہلے اور دوسرے نمبر پر رہی ہیں جب کہ نشستوں کے اعتبار سے پیپلز پارٹی تیسرے نمبر پر تھی مگر فوائد حاصل کرنے میں پہلے نمبر پر ہے ۔ملک عزیز کے آئینی سربراہ یعنی صدر کا عہدہ اس جماعت کے پاس ہے اس کے بعد سینٹ کے چئیرمین کا عہدہ بھی اسی جماعت کے پاس ہے ۔قومی اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر کا تعلق بھی پیپلز پارٹی سے ہے ۔جب کہ سندھ اور بلوچستان کے وزرائے اعلیٰ اور خیبرپختونخوا ٫پنجاب اور گلگت بلتستان کے گورنرز بھی اسی پارٹی کے اہم ترین ممبران ہیں۔پارلیمنٹ میں مختلف کمیٹیوں کی چئیرمین شپ پر بھی پیپلز پارٹی قابض ہے ۔دوسری طرف وفاقی حکومت کا حصہ بننے سے بھی انکاری ہے اور ایک طرف تو سارے مزے بھی لئے جارہے ہیں جبکہ ذمہ داری سے فرار بھی جاری ہے ۔اگر پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بڑھتی ہیں یا ٹیکسوں کی بھرمار ہوتی ہے تو پیپلز پارٹی یہ کہتے ہوئے دامن بچا لیتی ہے کہ کون سی ہماری حکومت ہے؟ یہ حکومت تو مسلم لیگ نون کی ہے۔ویسے آصف علی زرداری بڑے شاندار طریقے سے کھیل رہے ہیں بلاول کے ذریعے موجودہ حکومت پر تنقید کرواتے ہیں جب درجہ حرارت بڑھتا ہے تو فوراً معاملات کو ٹھنڈا کرنے کے لئےخود پہنچ جاتے ہیں اور معاملہ رفع دفع کروا دیتے ہیں یوں پیپلز پارٹی ایک ہی وقت میں حکومت کا حصہ بھی ہے اور اپوزیشن کا کردار بھی ادا کر رہی ہے ۔اب تازہ خبر پڑھئیے ۔بلاول بھٹو زرداری نے وزیراعظم پاکستان جناب میاں شہباز شریف سے ملاقات کی ہے جس میں انہوں نے مطالبات کی ایک فہرست میاں صاحب کے ہاتھ میں تھما دی ہے دوسری طرف وزیراعظم نے ان کے تحفظات دور کرنے کی یقین دہانی کروائی ہے ۔بلاول بھٹو نے شہباز شریف سے کہا کہ “حکومت کسی بھی فیصلہ سازی میں اعتماد میں نہیں لے رہی ٫حکومت کی حمایت کے معاہدے پر عمل نہیں ہو رہا٫پنجاب میں پیپلز پارٹی کو محدود کیا جارہا ہے٫ سندھ کے ترقیاتی منصوبوں میں وفاق سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کر رہا ۔بلاول بھٹو زرداری کا یہ بھی شکوہ تھا کہ موجودہ پنجاب حکومت پیپلز پارٹی کے خلاف پنجاب میں اقدامات کر رہی ہے اور پیپلز پارٹی کو محدود کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔”وزیر اعظم شہباز شریف نے بلاول بھٹو کے بیشتر نکات سے اتفاق کیا اور معاملات کے حل کے لئے کمیٹیاں تشکیل دے دی ہیں۔وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ “معیشت کے حوالے سے مثبت اعشارئیے آرہے ہیں٫ سٹاک مارکیٹ میں تاریخی تیزی کاروباری طبقے کی طرف سے بجٹ کی توثیق ہے ٫ملکی ترقی خوشحالی اور عوامی فلاح و بہبود کے لئے تمام جماعتوں کو مل کر کام کرنا ہو گا۔”چئیرمین پی پی پی کے ساتھ یوسف رضا گیلانی ٫شیریں رحمن ٫سید نوید قمر راجہ پرویز اشرف اور خورشید شاہ بھی موجود تھے جب کہ وزیراعظم کی معاونت نائب وزیر اعظم اسحاق ڈار ٫وزیر خزانہ محمد اورنگزیب ٫ وفاقی وزیر اطلاعات عطا تارڑ اور سعد رفیق کر رہے تھے ۔تازہ ترین اطلاعات کے مطابق بجٹ کی منظوری کے لئے پی پی پی نے حکومت کو ووٹ دینے کا ابھی تک فیصلہ نہیں کیا اس حوالے سےپی پی پی کے تحفظات برقرار ہیں۔مزاکراتی کمیٹیوں کے درمیان وزیراعظم ہاؤس میں چار گھنٹے کی ملاقات بھی بے نتیجہ رہی۔شنید ہے کہ پی پی پی پنجاب کے حوالے سے مطمئن نہیں ہے بلکہ دوسرے لفظوں میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ پنجاب میں پیپلز پارٹی اپنا “حصہ “مانگ رہی ہے ۔پیپلزپارٹی کی طرف سے بڑا مطالبہ یہ پیش کیا جارہا ہے کہ پنجاب کے کچھ اضلاع میں بیوروکریسی ان کی مرضی و منشاء کے مطابق لگائی جائے جو کہ ان کی مرضی کے مطابق کام کرے ۔اس حوالے سے وزیر اعلیٰ پنجاب محترمہ مریم نواز راضی نہیں ہیں۔اگرچہ پنجاب میں مسلم لیگ نون کو تو پیپلز پارٹی کی ضرورت نہیں ہے مگر مرکز میں پیپلز پارٹی کی حمایت کے بغیر حکومت میں رہنا نا ممکن ہے ۔ویسے اس سارے کھیل میں اگرچہ مسلم لیگ نون حکومت حاصل کرنے میں کامیاب تو ہوگئی ہے مگر عوامی سطح پر مسائل کاسامنا بھی مسلم لیگ نون کو ہی کرنا پڑ رہا ہے کیونکہ پیپلز پارٹی آئینی عہدوں کے حصول کے بعد بھی یہ کہہ کر بری الزمہ ہو جاتی ہے کہ ہم کون سے حکومت میں ہیں؟اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا مریم بی بی( Power sharing ) کے فارمولے پر اتفاق کرکے اپنے چچا کے لئے مسائل کم کرنے میں معاونت کرتی ہیں یا پھر اس سے انکار کر کے ان کی مشکلات میں اضافہ کرتی ہیں؟
پروفیسر قیصر عباس!
Those who are familiar with politics only know that the People’s Party has benefited the most in the current political system.