کینسر کی بڑھتی ہوئی تباہی کے وجوہات حل اور اقدمات، یاسر دانیال صابری
گلگت بلتستان وہ خطہ ہے جہاں کے برف پوش پہاڑ، گلیشیئرز اور شفاف ندیاں ظاہری طور پر تو جنت کا منظر پیش کرتی ہیں، مگر اس جنت کے سینے میں ایک خاموش آفت پنپ رہی ہے، جس کا نام ہے کینسر۔ ایک ایسا موذی مرض جس کا ذکر سن کر ہی دل دہل جاتا ہے، اور جب یہ حقیقت بن کر کسی کے گھر دستک دیتا ہے تو صرف ایک فرد نہیں بلکہ پوری فیملی کی زندگی بدل کر رکھ دیتا ہے۔ گزشتہ چند برسوں میں گلگت بلتستان میں کینسر کے کیسز میں غیر معمولی اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ نہ صرف عمر رسیدہ افراد بلکہ نوجوان، خواتین اور حتیٰ کہ بچے بھی اس خطرناک بیماری کی زد میں آ رہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اس علاقے میں اچانک یہ اضافہ کیوں ہو رہا ہے؟ وہ کون سے عوامل ہیں جو بظاہر صاف ستھرے اور صحت افزا ماحول میں پرورش پانے والے لوگوں کو بھی اس مہلک مرض کا شکار بنا رہے ہیں؟
سب سے پہلی اور اہم وجہ پانی کا آلودہ ہونا ہے۔ سکردو، گلگت اور دیگر علاقوں میں پانی کے جو ذخائر استعمال کیے جا رہے ہیں، ان میں مضر صحت دھاتوں کی مقدار عالمی معیار سے کہیں زیادہ پائی گئی ہے۔ کروم، نِکل، آرسینک، سیسہ اور کیڈمیم جیسی بھاری دھاتیں نہ صرف جگر اور گردوں کو متاثر کرتی ہیں بلکہ طویل مدتی استعمال سے جسم میں رسولیوں اور کینسر جیسے امراض کو جنم دیتی ہیں۔ گلیشیئرز کے نیچے پگھلنے والے پانی میں شامل ہونے والے سیاہ ذرات، صنعتی فضلہ اور ناقص نکاسی نظام اس عمل کو مزید سنگین بناتے جا رہے ہیں۔ یہ پانی نہ صرف گھریلو استعمال بلکہ زراعت کے لیے بھی استعمال ہو رہا ہے جس سے سبزیاں، پھل اور فصلیں بھی متاثر ہو رہی ہیں۔
دوسری اہم وجہ ناقص غذائیت اور مائیکرونیوٹرینٹس کی کمی ہے۔ گلگت بلتستان کے دیہی اور نیم شہری علاقوں میں خوراک کی فراہمی کا نظام پہلے ہی کمزور ہے۔ زیادہ تر لوگ بنیادی غذائی ضروریات سے محروم ہیں، جن میں فولاد، کیلشیم، زنک، وٹامن ڈی اور سیلینیم جیسے عناصر شامل ہیں۔ ان اجزاء کی مسلسل کمی جسم کے مدافعتی نظام کو کمزور کر دیتی ہے اور کینسر جیسے امراض کے حملے کو آسان بنا دیتی ہے۔ ساتھ ہی یہاں کے لوگ عموماً محدود خوراک استعمال کرتے ہیں، اور جسمانی مشقت کرنے کے باوجود متوازن غذا نہ ملنے کے باعث جسمانی نظام کمزور ہو جاتا ہے۔
تیسری اور نہایت خطرناک وجہ نشہ آور اشیاء کا بڑھتا استعمال ہے۔ نوجوانوں میں گٹکا، پان، نسوار اور بعض جگہوں پر سگریٹ اور دیگر نشہ آور چیزوں کا استعمال معمول بن چکا ہے۔ یہ اشیاء نہ صرف منہ، گلے اور پھیپھڑوں کے کینسر کی بنیادی وجہ بنتی ہیں بلکہ ذہنی صحت کو بھی برباد کر دیتی ہیں۔ تعلیمی اداروں، بازاروں اور محلوں میں ان اشیاء کی کھلے عام فروخت ایک المیہ ہے، جسے روکنے کے لیے کوئی مؤثر حکومتی نظام موجود نہیں۔
چوتھی وجہ تشخیص میں تاخیر ہے۔ گلگت بلتستان میں کینسر کی اسکریننگ، ابتدائی جانچ اور مکمل تشخیص کی سہولیات تقریباً نہ ہونے کے برابر ہیں۔ جو مریض کینسر کے علامات ظاہر کرتے ہیں، وہ یا تو دیسی علاج کی طرف رجوع کرتے ہیں یا دیر سے ہسپتال پہنچتے ہیں۔ اکثر مریض تیسرے یا چوتھے مرحلے میں جب علاج کی گنجائش نہ ہونے کے برابر رہ جاتی ہے، تب رپورٹ ہوتے ہیں۔ اس تاخیر کا سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ ایک قابل علاج بیماری جان لیوا بن جاتی ہے۔
پانچویں اہم عنصر عوامی شعور کی کمی ہے۔ آج بھی بیشتر علاقوں میں لوگ کینسر کو جادو، سایہ یا گناہوں کا عذاب سمجھ کر ڈاکٹری علاج سے گریز کرتے ہیں۔ خواتین، خاص طور پر بریسٹ کینسر کے حوالے سے نہ تو آگاہی رکھتی ہیں اور نہ ہی شرم و حیا کے پردوں سے نکل کر بروقت معائنہ کرواتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ خواتین میں بریسٹ، رحم، اور دیگر نسوانی کینسرز کے کیسز میں خطرناک حد تک اضافہ دیکھنے کو ملا ہے۔
ان تمام اسباب کے باوجود اگر حکومت اور متعلقہ ادارے بروقت اور سنجیدہ اقدامات کریں تو اس صورتحال کو کافی حد تک کنٹرول کیا جا سکتا ہے۔ خوش آئند بات یہ ہے کہ کچھ ادارے جیسے کہ نووارٹس اور وفاقی وزارت صحت نے مل کر گلگت بلتستان، اسلام آباد اور آزاد کشمیر کے بعض مریضوں کو مفت علاج اور ادویات فراہم کرنے کا پروگرام شروع کیا ہے۔ لیکن یہ اقدامات نہایت محدود اور ناکافی ہیں۔
حکومت کو چاہیے کہ فوری طور پر گلگت بلتستان کے تمام اضلاع میں صاف پانی کی فراہمی کو یقینی بنائے۔ فلٹریشن پلانٹس، گندے پانی کی نکاسی اور زمین میں موجود دھاتوں کی سطح کی نگرانی کے لیے باقاعدہ ماحولیاتی لیبارٹریز قائم کی جائیں۔ اسکول، کالج اور دیہی مراکز میں مائیکرونیوٹرینٹس کے سپلیمنٹس مفت فراہم کیے جائیں تاکہ غذائی قلت کا شکار بچے اور نوجوان صحت مند زندگی گزار سکیں۔ گٹکا، پان اور سگریٹ کی فروخت پر مکمل پابندی عائد کی جائے اور قانون نافذ کرنے والے ادارے اس پر عمل درآمد کو یقینی بنائیں۔
اس کے علاوہ کینسر اسکریننگ کے لیے موبائل یونٹس تشکیل دیے جائیں جو دیہی علاقوں میں جا کر ابتدائی معائنہ اور علامات کی شناخت کر سکیں۔ ہر ضلع میں کم از کم ایک کینسر ڈائیگنوسس سینٹر قائم کیا جائے جہاں بروقت تشخیص کی سہولت ہو۔ ان سینٹرز میں مقامی ڈاکٹروں کو تربیت دی جائے تاکہ مریضوں کو بڑی شہروں کا سفر نہ کرنا پڑے۔ اس کے ساتھ ساتھ میڈیا، مساجد اور تعلیمی اداروں کے ذریعے عوام میں آگاہی مہمات شروع کی جائیں تاکہ لوگ کینسر کو محض ایک لعنت یا سزا سمجھنے کے بجائے ایک قابلِ علاج بیماری کے طور پر لیں۔
اس مسئلے کا ایک اور پہلو بھی نہایت اہم ہے اور وہ ہے مقامی سطح پر ڈیٹا کلیکشن اور تحقیق کا فقدان۔ جب تک حکومت اور صحت کے ادارے یہ جاننے میں ناکام رہیں گے کہ کن علاقوں میں کس قسم کے کینسر زیادہ ہو رہے ہیں، اور کن عوامل کی وجہ سے ہو رہے ہیں، تب تک مؤثر پالیسی سازی ممکن نہیں۔ گلگت بلتستان میں کینسر سے متعلق ایک الگ اور مکمل ڈیجیٹل ڈیٹابیس قائم کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ اس ڈیٹابیس کے ذریعے تحقیق، علاج اور پالیسی سازی میں کافی مدد مل سکتی ہے۔
جہاں ایک طرف حکومت پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے، وہیں معاشرتی سطح پر بھی اصلاح کی ضرورت ہے۔ والدین، اساتذہ، کمیونٹی لیڈرز اور دینی رہنما اگر اجتماعی طور پر کینسر سے بچاؤ اور ابتدائی علامات کے بارے میں لوگوں کو آگاہ کریں تو کئی جانیں بچائی جا سکتی ہیں۔ اگر کسی گاؤں میں صاف پانی میسر نہیں، اگر گٹکا دھڑلے سے بک رہا ہے، اگر خواتین کو صحت کی سہولیات نہیں ملتیں، اگر بچوں کو متوازن غذا نہیں ملتی، تو یہ صرف ریاست کی نہیں بلکہ پوری قوم کی ناکامی ہے۔
کینسر کے بڑھتے کیسز گلگت بلتستان کے قدرتی حسن پر بدنما داغ کی مانند ہیں۔ اگر ہم نے آج اس خاموش دشمن کو نہ روکا تو آنے والے دنوں میں نہ صرف ہسپتال بھر جائیں گے بلکہ ماؤں کی گودیں، گھروں کی رونقیں اور معاشرے کی امیدیں خاموشی سے دم توڑتی جائیں گی۔ اب بھی وقت ہے کہ ہم اس مسئلے کو سنجیدگی سے لیں، اجتماعی شعور کو بیدار کریں، اور عملی اقدامات کے ذریعے ایک صحت مند گلگت بلتستان کی بنیاد رکھیں۔ خاموشی سے مرنے کے بجائے بیداری سے جینے کی راہ اپنائیں، کیونکہ زندگی کا تحفظ صرف دعاؤں سے نہیں، تدابیر سے بھی ہوتا ہے۔
یاسر دانیال صابری
column in urdu