غزہ کے معصوم بچوں کی صدا ، ردا فاطمہ اسوہ گرلز کالج
دنیا کا دستور ہمیشہ یہی رہا ہے کہ اچھے, نیک لوگوں کو دبا دیا جاتا ہے اور ان کی زندگیوں کو مشکل بنا دیا جاتا ہے جبکہ آئینے کے دوسرے رخ پر نظر دوڑائی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ ظالم، جابر اور شرانگیز شخص کو دنیا میں حق پر سمجھا جاتا ہے اور ہر ناجائز کام میں دنیا اس کے ساتھ پیش پیش رہتی ہے ان دو مختلف گروہوں کے مثال سیدھی اور ٹیڑھی کیل کی سی ہے کہ سیدھی کیل کو ٹھونک دیا جاتا ہے اور ٹیڑھی کیل کو چھوڑ دیا جاتا ہے اس عارضی اور بے وفا دنیا اور خاکی مخلوق کی زندگی کے ارتقا ء سے ہی عادت اور فطرت رہی ہے کہ جس برتن میں کھائے اس میں یہ چھید کرے یعنی کھٹن اور دشوار حالات میں ہی جس ہاتھ نے اس کے لیے سہارے کا کام کیا اور ان کے بھوکے پیٹوں اور بے سہاروں کو غذا اور رہائش فراہم کی اور ان کی مدد کرنے میں دل کھول کر اور خود بھوکے رہ کر انہیں امداد فراہم کی۔ یہ لمحہ اس وقت کا ہے گھر اور دربدر ہونے والے اسرائیلیوں کو دنیا بھر میں رد کر دیا گیا اور ان کی مدد کرنا ناگوار سمجھا گیا لیکن فلسطین نے ان بے یار و مددگار لوگوں کے لیے ایک امید کی کرن کا کام کیا اور انہیں نہ صرف اپنے گھروں میں بلکہ اپنے دلوں میں بھی جگہ دی مگر افسوس صد افسوس اس نیکی کا صلہ ان آستین کے سانپوں نے اس طرح دیا کہ سہارا دیتے ہوئے ہاتھ کو ہی کاٹ ڈالا اور ان کے جسموں کو روند ڈالا۔اب یہی لوگ یعنی اسراٸیل لاکھوں بے قصور فلسطینیوں کا قاتل بن چکے ہیں اور ان لوگوں کی مدد حاصل کر کے وہ اپنے اپ کو طاقتور سمجھ رہا ہے کہ جس نے اس کے مشکل وقت میں ان کے آباؤ اجداد کو اپنے علاقوں میں تو دور کی بات حدود میں بھی رہنے کی اجازت نہ دی تھی اور یہ جو طاقت کی نشے میں مست ہو کر ان لوگوں کے ہاتھوں کی کٹھ پتلی بند بیٹھا ہے اور وہ لوگ اس کو اپنے مقصد میں استعمال کر رہے ہیں جس کا علم اس نادان کو نہیں اور عقل پر ماتم اس بات کا ہے کہ امت مسلمہ اپنا آپ کھو چکی ہے اور وہ ان حالات میں ایک ٹوٹے ہوئے ائینے کی مانند ہو چکی ہے جس پر فلسطین جیسا معصوم بچہ اپنا پاؤں رکھ کر ان شیشے کے ذرات کی وجہ سے اپنے آپ کو لہو لہان کر رہا ہے اسلامی دنیا کی حالت اتنی ابتر ہے کہ بعض اسلامی ممالک حقیقت سے آشنا ہونے کے باوجود بھی طاقتور ممالک کے خوف و ڈر سے مظلوم فلسطینیوں کا ساتھ نہیں دیتے اور بعض اسلامی ممالک دو غزہ پر ہونے والے حملوں اور نسل کشی کے لیے کیے جانے والے ان پروپیگنڈوں کو دیکھ کر ان دیکھا کر دیتے ہیں اور ان کو غیر ضروری معمولات کہہ کر جان چھڑا لیتے ہیں جبکہ اگر یہ مظالم، زیادتیاں اگر خود ان پر کی جائے تو وہ چیخ چیخ کر اپنے حق اور انصاف کے لیے اقوام متحدہ کا دروازہ کھٹکھٹائیں گے اسی خاموشی ،نااتفاقی اور طاقتور ممالک کے اثر رسوخ نے اسلام دشمنان عناصر کے سوئے ہوئے جذبات کو ابھارا ہے اور اسلامی ممالک کا فلسطین کے ساتھ کھڑے نہ ہونے اور اسرائیلی اور ان کے حامیوں کو منہ توڑ جواب نہ دینے کی وجہ سے پوری دنیا میں فلسطین کے وجود پر ہی سوالیہ نشان لگ چکا ہے مزید یہ کہ اسلامی ممالک میں اب بھی اسرائیلی کمپنیاں کام کر رہی ہیں اور وہاں کاروبار کر کے خوب فائدہ اٹھا رہے ہیں خاموشی اختیار کرنے کے ساتھ ان اسلامی ممالک کے حکمران اور عوام کا ضمیر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مردہ ہو رہا ہے جو جو اپنے دینی بھائیوں کے قاتلوں کو معاشی اور مالی طور پر مضبوط بنانے کے لیے سہولیات فراہم کر رہے ہیں اور اسرائیل اس مال کا استعمال کر کے فلسطین کو صفحہ ہستی سے مٹانے کے چکر میں ہے ایران اور چند دوسرے اسلامی ممالک اپنے فلسطینی بھائیوں کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں اور ان کی خاطر جان و مال کی قربانی دے رہے ہیں مجھے اس بات سے فخر محسوس ہوتا ہے کہ ایران نے ہمیشہ فلسطین پر حملے کا اسرائیل اور امریکہ کو بھرپور جواب دیا ہے اور ان کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اپنی حمایت کا اعلان کر کے حاضر وقت کے اسلامی دشمن کو للکارا ہے میں دنیا کو بالخصوص امریکہ اور اسرائیل کو یہ بتانا چاہوں گی کہ تم جو اپنے سینوں میں خواب سجا بیٹھے ہو فلسطین پر قبضہ کرنے کا تو یہ ایک ایسے سراب کی مانند ہے جو تم صحرا کی تپتی ہوئی ریت پر ہتم بھوک و پیاس کی بنا پر کر رہے ہو اپنی جان بچانے کے لیے جتنا ہاتھ پاؤں مار سکتے ہو مار لو کیونکہ تمہارے زوال کا وقت بہت قریب اگیا ہے جو تم معصوم بچوں اور بے گناہ عورتوں کو قتل کر کے جس نرم و ملائم بستر پر ٹیک لگا کر سونے کی خواہش رکھتے ہو ان سسکتے ہوئے بچوں کی فریاد ،ماؤں کی اجڑی ہوئی گودوں سے آنے والی صدائیں اور بہنوں کی درد بھری وہ آہے تمہیں سکون اور چین سے کیسے بیٹھنے دے سکتی ہیں چند فتوحات حاصل کر کے یہ نہ سمجھ لینا کہ تم نے غلبہ حاصل کر لیا ہے کیونکہ ہر دور میں باطل جتنا بھی طاقتور ہو کیوں نہ ہو مظلوم کی ایک آہ سے تباہ ہو چکا ہے اور ان کا نام و نشان تک باقی نہیں تمہاری یہیں طاقت کا نشہ اور گھمنڈ ہی تمہیں لے ڈوبے گا ہمارے انتقام کے لیے تو ہمارا خدا ہی کافی ہے اور ہر ظالم کا ایک ہی انجام ہوتا ہے اور ظلم جب حد سے بڑھ جاتا ہے تو مٹ جاتا ہے اخر میں میں عالم اسلام کے ہر فرد کو یہیں پیغام دینا اور گزارش کرنا چاہوں گی کہ ہر کسی کو چاہیے کہ ایک دینی بھائی کی حیثیت سے فلسطین کی امداد کریں ہاں ہم وہاں تو جا کر دشمن سے نہیں لڑ سکتے لیکن اپنی اپنی جگہ رہ کر دشمن کے منصوبوں پر پانی پھیر سکتے ہیں کچھ اس طرح سے کی ہر کوئی اسرائیلی اشیاء کا بائیکاٹ کرے اور جن افراد کے پاس سوشل میڈیا ہے وہ ان کا بہترین فائدہ اٹھاتے ہوئے ہمہ وقت ظالموں کو آئینہ دکھائے اور گواہی دے کہ ہم اپنے فلسطینی بھائیوں کے ساتھ ہر وقت کھڑے ہیں
“نہ تیر سے ، نہ تلوار سے
حملہ کرو اپنے الفاظ کی چنگار سے”
column in urdu