جہیز کے زیورات یا تعلیم کا وقار. فضہ ستار
بلتستان ان دنوں روشنیوں سے جگمگا رہا ہے۔ شادیوں کا سیزن ہے، اور سوشل میڈیا پر خوشیوں کی بہار آئی ہوئی ہے۔ نئے نویلے جوڑوں کی تصاویر، دوستوں کی مبارکبادیں، اور دلہنوں کی مہنگی ڈریسنگ ہر فیڈ پر چھائی ہوئی ہے۔ یہ سب کچھ دیکھ کر بظاہر ایک خوبصورت منظر نظر آتا ہے، لیکن اگر دل تھوڑا سا گہرائی میں جائے تو کئی سوالات جنم لیتے ہیں۔ کیا واقعی ہم خوشی منا رہے ہیں، یا صرف معاشرتی مقابلے بازی کا ایک دکھاوا؟
تعلیم کا دروازہ بند، مگر سونے کے دروازے کھلے؟
ہماری بیٹیاں، جنہوں نے ابھی ایف ایس سی مکمل کی ہوتی ہے، فوراً شادی کے بندھن میں باندھ دی جاتی ہیں۔ جب ان سے پوچھا جائے کہ آگے تعلیم کیوں نہیں جاری رکھی؟ تو جواب ملتا ہے، “گھر والوں کے پاس وسائل نہیں تھے۔”
“ابو نہیں مانتے، حالات اجازت نہیں دیتے۔”لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ یہی گھر والے، شادی کے موقع پر سونا، زیورات، بیڈ، الماریاں، پردے، برتن، مشینیں، اور جانے کیا کیا چیزیں خریدنے کے لیے زمین بیچنے، قرض لینے، اور عزت گروی رکھنے پر آمادہ ہو جاتے ہیں۔
کیا تعلیم اتنی غیر ضروری اور زیور اتنے ضروری ہو گئے ہیں؟
کیا سسرال میں بیٹی کی عزت سونے کے سیٹ سے ہوگی یا اس کی تعلیم، سمجھداری اور وقار سے؟
جہیز اب صرف ایک تحفہ نہیں رہا، یہ ایک بوجھ بن چکا ہے۔ ایسا بوجھ جو بیٹی کے باپ کو جھکا دیتا ہے، اسے قرض میں مبتلا کر دیتا ہے، یہاں تک کہ بعض اوقات بیٹی کی پیدائش پر ہی دل سے آہ نکل جاتی ہے۔ کیوں؟ کیونکہ شادی کے وقت “کچھ دینا پڑے گا”۔
ایک امیر باپ لاکھوں کا جہیز دے دے تو وہ “عزت دار” کہلاتا ہے، لیکن اگر غریب باپ اتنا نہ دے سکے تو اس کی بیٹی کی “ویلیو” کم سمجھی جاتی ہے۔ وہی بیٹی، جو کردار، وفا، صبر اور محبت سے بھرپور ہو، صرف اس لیے کمتر سمجھی جاتی ہے کہ اس کے ساتھ “سامان” کم آیا؟ کیا ہم واقعی انسانوں کی قدر کر رہے ہیں یا چیزوں کی؟
شادی کو آسان، زندگی کو باوقار بنائیں،ہمیں چاہیے کہ شادی کو سادہ اور آسان بنائیں، تاکہ معاشرے کا ہر طبقہ، خصوصاً غریب طبقہ، اپنی بیٹی کو عزت سے رخصت کر سکے، بغیر کسی قرض، بوجھ اور شرمندگی کے.گاؤں، محلے، برادری کے سرکردہ افراد، علماء، اور باشعور نوجوانوں کو آگے آنا ہوگا۔ باقاعدہ معاہدے، ضابطے، اور قوانین بنانا ہوں گے کہ:
شادی سادگی سے ہوگی۔
جہیز کی حوصلہ شکنی کی جائے گی۔
تعلیم کو ترجیح دی جائے گی۔
بیٹی کی قیمت اس کے زیورات سے نہیں، اس کے علم، اخلاق اور کردار سے لگائی جائے گی۔
بیٹی صرف بوجھ نہیں ،ایک بیٹی کا باپ ہونا ایک فخر ہے۔ بیٹی اللہ کی رحمت ہے، نہ کہ ایک معاشی چیلنج۔ ہمیں اپنی بیٹیوں کو اس طرح رخصت کرنا چاہیے جیسے ہم کسی قیمتی سرمایہ کو کسی نئے گھر میں روانہ کر رہے ہوں—اعتماد کے ساتھ، دعاؤں کے ساتھ، اور تعلیم کے ساتھ۔
جہیز کے زیورات، بیڈ، الماریاں، سب پر زنگ لگ جاتا ہے، مگر ایک تعلیم یافتہ بیٹی کا شعور، فہم اور وقار کبھی پرانا نہیں ہوتا۔ وہ نہ صرف خود اپنے لیے جیتی ہے بلکہ سسرال اور خاندان کے لیے باعثِ فخر بنتی ہے۔
میری آواز، صرف میری نہیں
میں جانتی ہوں کہ بہت سے لوگ میری بات سے اختلاف کریں گے۔ اور یہ ان کا حق ہے۔
لیکن میری یہ آواز صرف ایک بیٹی کی نہیں، ہر اُس لڑکی کی ہے جو تعلیم کے خواب چھوڑ کر زیورات کے بوجھ تلے بیاہی جا رہی ہے۔
یہ آواز اُن والدین کی بھی ہے جو اپنی غربت کے باوجود معاشرتی دباؤ میں آ کر اپنی بیٹی کو بوجھ سمجھ بیٹھتے ہیں۔
میں چاہتی ہوں کہ یہ آواز کانوں سے نہ گزرے، دلوں تک پہنچے۔
بیٹی کو زیور نہیں، تعلیم کا ہار پہنائیں۔ تبھی وہ خود بھی چمکے گی اور آپ کا نام بھی۔اختلاف ہر شخص کا حق ہے، اور ممکن ہے کئی لوگ میری اس رائے سے متفق نہ ہوں۔ لیکن میں نے وہی لکھا ہے جو دل نے محسوس کیا—سچ، بے باک اور خلوص سے۔
column in urdu,