قومیت کی قید میں پاکستان سمیت گلگت بلتستان بھی، یاسر دانیال وزیر
پاکستان ایک کثیرالقومی، کثیراللسانی اور کثیرالمذہبی ملک ہے، جہاں بظاہر ایک قومی پرچم کے سائے تلے سب برابر ہیں، مگر حقیقت اس کے برعکس ہے۔ یہاں ہر شخص کی پہچان اس کے عقیدے، علاقے، قوم، زبان اور قبیلے سے جڑی ہوئی ہے۔ اس شناخت کے ساتھ تعصب، نفرت، اور برتری کا ایک ایسا سلسلہ جُڑا ہے جو ہمیں قومی وحدت سے دور کرتا جا رہا ہے۔ یہی عالم گلگت بلتستان کا بھی ہے، جہاں قومیت اور قبیلہ پرستی کی جکڑ ایسی سخت ہو چکی ہے کہ انسانیت کی آواز دب کر رہ گئی ہے۔
گلگت بلتستان، جو قدرتی حسن، ثقافت، اور حب الوطنی کی علامت رہا ہے، آج داخلی تعصبات، قبائلی تقسیم، اور لسانی برتری کے زہر میں بری طرح جکڑا ہوا ہے۔ استواری، حراموشی، گلگتی، ہنزائی، بلتی، شین، یشکن، ڈوم، کمن، بگروٹی، غذری، دنیوری، چلاشی — ہر ایک نام کے ساتھ کوئی تعصب، کوئی نفرت، اور کوئی تفریق جڑی ہے۔ کوئی قوم خود کو دوسروں سے برتر سمجھتی ہے، تو کوئی خود کو کمتر محسوس کر کے اپنی شناخت بدلنے پر مجبور ہے۔
یہاں تک کہ وہ لوگ جنہیں ماضی میں ‘ڈوم’ کہا جاتا تھا، آج اپنی پہچان بدل کر ‘مغل’ کہلوانے لگے ہیں تاکہ سماجی حقارت سے بچ سکیں۔ سوال یہ ہے کہ ایک مہذب، تعلیم یافتہ اور بیدار معاشرے میں انسان کو اپنی اصل شناخت چھپانے کی ضرورت کیوں پیش آتی ہے؟ وجہ یہی تعصب، قومیت پرستی اور خاندانی اونچ نیچ کا زہریلا سانپ ہے جو معاشرتی ہم آہنگی کو نگلتا جا رہا ہے۔
یہ زہر صرف دیہی سطح تک محدود نہیں بلکہ تعلیمی اداروں، سرکاری دفاتر، عدالتوں اور اسپتالوں تک پھیلا ہوا ہے۔ جب کسی طالبعلم سے کاسٹ، قوم، یا برادری کا پوچھا جاتا ہے تو یہ صرف ایک معلوماتی سوال نہیں ہوتا بلکہ ایک تعصب کی بنیاد رکھ دی جاتی ہے۔ جب کسی نوکری میں یا کسی تعلیمی ادارے میں داخلے کے وقت کسی مخصوص قوم یا علاقے سے وابستگی کی بنیاد پر ترجیح یا حقارت دی جاتی ہے تو یہ ایک اجتماعی سماجی جرم ہے۔
کراچی، لاہور یا اسلام آباد جیسے شہروں میں جب کوئی گلگتی، بلتی، یا ہنزائی نوجوان اپنی شناخت بتاتا ہے تو اسے ‘لالہ’ یا ‘پہاڑی’ کہہ کر طنز کیا جاتا ہے۔ یہ رویہ نہ صرف انفرادی وقار کو مجروح کرتا ہے بلکہ قومی یکجہتی کو بھی خطرے میں ڈال دیتا ہے۔
دوسری طرف، گلگت بلتستان کے اندر خود یہ رویہ زیادہ مہلک ہو چکا ہے۔ اکثر ہمسایہ دیہات ایک دوسرے کو ناپسند کرتے ہیں۔ استواری اور حراموشی ایک دوسرے پر عدم اعتماد رکھتے ہیں، ہنزا اور نگر کے درمیان احساسِ برتری کی دیواریں کھڑی ہو چکی ہیں، جبکہ گلگت شہر کے شہری خود کو بلتستان یا غذر سے آنے والے افراد سے برتر سمجھتے ہیں۔ یہ سب رویے اس بات کا ثبوت ہیں کہ تعصب یہاں صرف ظاہری نہیں بلکہ ایک اندرونی زہر بن چکا ہے۔
یہ زہر نہ صرف رشتوں کو توڑتا ہے بلکہ پیشہ ورانہ وقار کو بھی روندتا ہے۔ ایک استاد، ڈاکٹر یا انجینئر کو اس کی ذات یا علاقے کی بنیاد پر کم تر سمجھا جاتا ہے۔ بعض جگہوں پر زرعی یا معمولی ملازمین کو صرف ان کی قوم کی بنیاد پر نظرانداز کر دیا جاتا ہے۔ گویا تعلیم، قابلیت اور خدمت کا کوئی مول نہیں، صرف ذات اور قومیت ہی سب کچھ ہے۔
اسلام، جو ہمیں مساوات، بھائی چارے، اور اتحاد کا درس دیتا ہے، اس کے ماننے والے خود سب سے زیادہ قوم، زبان اور نسل کی بنیاد پر تقسیم ہو چکے ہیں۔ ہم نمازوں میں صفوں میں کھڑے تو ہو جاتے ہیں، مگر دلوں میں فاصلہ قائم رکھتے ہیں۔
یہی صورتحال پورے پاکستان کی بھی ہے، جہاں پنجابی، سندھی، بلوچی، پٹھان، کشمیری، سرائیکی، مہاجر، گلگتی — سب ایک دوسرے کو شک و شبہ کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ 75 سال سے زائد کا عرصہ گزرنے کے باوجود ہم ایک قوم نہیں بن پائے۔ زبان، لباس، خوراک اور تہذیب کے نام پر ہم نے اپنے درمیان ایسی دیواریں کھڑی کر لی ہیں جو دشمنوں کے بارود سے زیادہ خطرناک ہیں۔
احتیاطی تدابیر۔۔۔
1. تمام تعلیمی اداروں میں ذات پات اور قوم سے متعلق سوالات ختم کیے جائیں۔
2. میڈیا کو چاہیے کہ وہ تمام قوموں کو برابر دکھائے، کسی ایک کو اعلیٰ یا دوسرے کو کمتر پیش نہ کرے۔
3. سرکاری بھرتیوں، تبادلوں اور ترقیوں میں قومیت، قبیلہ یا زبان کی بنیاد پر ترجیح کے رجحان کو مکمل طور پر ختم کیا جائے۔
4. مذہبی اور سماجی رہنما مشترکہ خطبات اور تقریبات کے ذریعے اتحاد کی فضا پیدا کریں۔
5. حکومت ہر سال “قومی یکجہتی ہفتہ” منائے جس میں تمام قوموں کی ثقافت کو منایا جائے اور تعصب کے خلاف آگاہی پھیلائی جائے۔
6. گلگت بلتستان کے اندر مختلف قوموں پر مبنی “یوتھ فورمز” قائم کیے جائیں جو آپسی تعلقات کو فروغ دیں۔
اختتامیہ: قومیت اگر اپنی پہچان کے لیے ہو، تو یہ خوبصورتی ہے، مگر جب یہ برتری اور نفرت کی بنیاد بن جائے تو یہ بدصورتی اور بربادی ہے۔ گلگت بلتستان جیسے خوبصورت خطے کو اگر ہم نے اس زہر سے پاک نہ کیا تو یہ علاقہ فطری حسن کے باوجود باطنی بدصورتی کا گڑھ بن جائے گا۔ پاکستان کو بھی ایک متحد، متحرک اور باشعور قوم کی ضرورت ہے، نہ کہ ذاتوں، قوموں اور قبیلوں میں بٹی ہوئی مخلوق کی۔
آئیے ہم سب مل کر اپنی سوچ، اپنے رویے، اور اپنی زبان کو اس زہر سے پاک کریں۔ تاکہ ہم نہ صرف ظاہری طور پر ایک قوم نظر آئیں بلکہ باطنی طور پر بھی ایک جسم، ایک دل، اور ایک جذبے کا نام ہوں — پاکستانی۔
column in urdu