عزت و وقار! پروفییر قیصر عباس
قوموں کی نفسیات کو سمجھنے کے لئے ان کے “پس منظر” کو سمجھنا ضروری ہے ورنہ کسی قوم کا مزاج سمجھنا عبس ہے ۔وہ قومیں اپنی عزت ووقار کا سودا نہیں کرتی جن کا ماضی تابناک رہا ہو ۔آج ایک اخبار پر نظر پڑی۔ایرانی نائب صدر جواد ظریف نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا ہے ۔انہوں نے اپنا استعفیٰ ایرانی صدر کو بھجوا دیا ہےجو ابھی تک انہوں نے منظور نہیں کیا یاد رہے ایرانی نائب صدر سابق صدر حسن روحانی کے دور میں وزیر خارجہ تھے ۔جواد ظریف کا کہنا ہے” کہ انہوں نے چیف جسٹس کے مشورے پر استعفیٰ دیا ہے تاکہ صدر مسعود پزشکیان کی انتظامیہ پر دباؤ میں کمی لائی جاسکے ۔”جواد ظریف نے ایکس اکاؤنٹ پر ایک پوسٹ پر لکھا” کہ انہوں نے ہفتے کو چیف جسٹس غلام حسین کی دعوت پر ان سے ملاقات کی تھی ٫ملاقات کے دوران چیف جسٹس نے مشورہ دیا کہ ملک کے حالات کو دیکھتے ہوئے میں انتظامیہ کو مزید دباؤ سے بچانے کے لئے یونیورسٹی میں تدریس کی طرف لوٹ جاؤں ۔”یاد رہے گزشتہ کئی ہفتوں سے اپوزیشن کی طرف سے جواد ظریف کے دو بیٹوں کے امریکی شہریت کے حامل ہونے پر ان کی بطور نائب صدر تقرری کو غیر قانونی قرار دیا جا رہا ہے تھا ۔میڈیا کے مطابق ایرانی صدر مسعود پزشکیان کو جواد ظریف کا استعفیٰ موصول ہو چکا ہے تاہم صدر نے جواد ظریف کے استعفیٰ پر ابھی کوئی فیصلہ نہیں کیا ۔جواد ظریف نے ایک بیان میں کہا” کہ مجھے اور میرے خاندان کو شدید الزامات ٫دھمکیوں اور توہین کا سامنا کرنا پڑا اس کے بعد عدلیہ کے سربراہ نے مجھے استعفیٰ دینے کا مشورہ دیا جس پر میں نے عمل کیا ہے ۔”اس سارے معاملے کو سامنے رکھتے ہوئے اچانک ذہن میں خیال آتا ہے کہ کتنے بدقسمت ہیں جواد ظریف صاحب کاش! انہوں نے اس ارض بے آئین پر جنم لیا ہوتا تو انہیں نائب صدر رہنے میں کتنی سہولیات میسر آ سکتیں تھی ۔عین ممکن ہے کہ انہیں صدر رہنے کے لئے “نظریہ ضرورت “کے خالق ملک محمد منیر میسر آ جاتے جو ان کو قصر صدارت میں ٹھہرنے کا کوئی نہ کوئی جواز تلاش کر دیتے یا پھر انہیں شریف الدین پیر زادہ مل جاتےاور وہ اچانک اپنی زنبیل سے” چیف ایگزیکٹو”کا نیا عہدہ نکال لیتے اور جواد ظریف کو گھر نہ جانا پڑتا ۔ہو سکتا ہے انہیں بابر اعوان ٫سردار لطیف کھوسہ ٫اعظم نزیر تارڑ یا پھر خواجہ حارث کی معاونت میسر آتی جس کی وجہ سے ان کا نائب صدر کے محل میں رکنا ممکن ہو جاتا ۔نائب صدارت کے لئے کوئی استثناء ہی ڈھونڈ لیا جاتا ۔اگر ایسا ممکن نہ ہوتا تو کوئی اپنی مرضی کی قانون سازی کروا لی جاتی جس میں یہ شق رکھ لی جاتی کہ اس وجہ سے ایرانی نائب صدر مزید اس عہدے پر کام کر سکتے ہیں اور یہ بھی ممکن تھا کہ آئین میں ردوبدل کرکے ان کی معیاد عہدہ کو ہی بڑھا دیا جاتا ۔جس چیف جسٹس نے انہیں مستعفٰی ہونے کا مشورہ دیا ان کے خلاف ہی” سپریم جوڈیشل کونسل “میں “ریفرنس” دائر کیا جاسکتا تھا ۔اگر جواد ظریف صاحب ہمارے ملک کے باشندے ہوتے تو ان کے پاس یہ آپشن بھی ہوتا کہ وہ بیٹوں سے لا تعلقی کا اظہارِ کرتے اور فرماتے کہ چونکہ میرے بیٹے عاقل و بالغ ہیں اس لئے ان کے کسی کاروبار ٫عمل یا قول کا میں ذمہ دار نہیں یہ کہہ کر وہ امریکہ میں اپنے بچوں کے ساتھ سالانہ چھٹیاں منانے بھی جا سکتے تھے ۔اگر میڈیا پر ان کے خلاف کوئی خبر چلتی تو وہ” پیکا” جیسی قانون سازی کرکے میڈیا کا گلا بھی گھونٹ سکتے تھے یا پھر چاہتے تو اپنے مخالف صحافی کو اٹھواتے٫ غائب کرواتے یاپھر چینل سے ہی آف آئیر کروا دیتے ۔وہ اپوزیشن لیڈران جنہوں نے اس مسلے کو اٹھایا ان کے بچوں کو اٹھوا کر ہراساں کیا جاسکتا تھا ان پر فیک کیسز بنائے جا سکتے تھے یا پھر الیکشن کمیشن کے ساتھ “ملی بھگت” کرکے ان کو پانچ سات سال کے لئے نااہل بھی کروایا جا سکتا تھا ۔یہ تمام حل جواد ظریف صاحب کے پاس موجود ہوتے اگر موصوف ملک عزیز میں پیدا ہوئے مگر جواد ظریف کے ساتھ تعزیت بنتی ہے کہ وہ اس ملک میں پیدا ہوئے جہاں عہدوں کی بجائے عزت و وقار کو ترجیح دی جاتی ہے اس لئے جواد ظریف کا گھر جانا ہی بنتا ہے۔
پروفیسر قیصر عباس!
column in urdu