قاضی کی ملاقات، پروفیسر قیصر عباس

Column in urdu 48

قاضی کی ملاقات، پروفیسر قیصر عباس
سر عبدالرشید میاں ملک عزیز کے پہلے منصف اعلی تھے اور انہوں نے ہی ملک کے پہلے گورنر جنرل محمد علی جناح سے گورنر جنرل کا حلف لیا تھا ۔سر عبدالرشید میاں کا تعلق لاہور کے علاقے باغبانپورہ سے تھا آپ آرائیں برادری کے سپوت تھے ۔انہوں نے محمد علی جناح سے اس لئے حلف لیا کیونکہ 1935 ء کے ایکٹ کے مطابق فیڈرل کورٹ کے چیف جسٹس کی یہ آئینی ذمہ داری تھی (1935ء کے ایکٹ کے مطابق ملک کی سب سے بڑی عدالت کا نام فیڈرل کورٹ تھا) 1956ء اور باقی تینوں دساتیر میں اس عدالت کانام سپریم کورٹ رکھا گیا ۔شنید ہے کہ تقریب حلف برداری میں حلف اٹھانے سے پہلے محمد علی جناح غلطی سے گورنر جنرل کی نشست پر بیٹھ گئے تو سر عبدالرشید میاں نے محمد علی جناح کو ان کی غلطی کا احساس دلایا اور فرمایا کہ چونکہ ابھی آپ نے بطور گورنر جنرل حلف نہیں اٹھایا اس لئے ابھی آپ اس کرسی پر نہیں بیٹھ سکتے۔محمد علی جناح کو اپنی غلطی کا احساس ہوا اور انہوں نے وہ نشست چھوڑ دی ۔پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان نے سر عبدالرشید میاں سے ملنے کی استدعا کی مگر انہوں نے چیف ایگزیکٹو سے ملنے سے یہ کہتے ہوئے انکار کر دیا کہ چونکہ حکومت وقت کے خلاف کچھ پٹیشنز کی میں سماعت کررہا ہوں اس لئے میں وزیر اعظم سے نہیں مل سکتا ۔وزیر اعظم سے ملنے کی وجہ سے یہ تاثر نہ جائے کہ میں ان کے عہدے سے متاثر ہو گیا ہوں اور ان کے خلاف دائر کردہ مقدمات میں ان کے لئے نرم گوشہ رکھتا ہوں۔یہ واقعات پاکستان بننے کے ابتدائی دنوں کے ہیں “نظریہ ضرورت ” اور چیف جسٹس ملک محمد منیر بعد کی پیداوار ہیں جنہوں نے اپنے ہم قبیلہ اور دوست گورنر جنرل ملک غلام محمد کی خواہشات کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لئے “مولوی تمیز الدین کیس” میں وہ راہ نکالی جس پر چل کر ہر فوجی آمر نے آئین پاکستان کو نہ صرف فتح کیا بلکہ اس کی آبرو ریزی بھی کی ۔ آج ہم اس نہج پر پہنچ چکے ہیں آئین پاکستان کتابی شکل میں تو دستیاب ہے لیکن عملاً ملک میں دکھائی نہیں دیتا ۔ماضی کی حوالہ اس لئے دینا پڑھا کہ پرنٹ میڈیا میں ایک خبر شائع ہوئی ہے ۔ قاضی وقت جناب یحییٰ آفریدی نے چیف ایگزیکٹو میاں محمد شہباز شریف سے ایوان وزیراعظم میں ملاقات کی ہے اور وزیراعظم پاکستان نے حکومت کے حوالے سے ٫خصوصاً ٹیکس سے متعلقہ مقدمات کی جلد سماعت کی استدعا کی ہے ۔یہ تو وہ خبر ہے جو میڈیا کو دی گئی ہے اندورنی کہانی کا ابھی نہیں پتہ شاید کسی ایسے صحافی تک اندر کی خبر بھی پہنچ جائے یا پھر اس ملاقات کا احوال موجودہ چیف جسٹس اپنی ریٹائرمنٹ کے بعد لکھی جانے والی کتاب میں لکھ دیں ۔خیر جب سنجیدہ حلقوں کی طرف سے اس ملاقات پر تنقید شروع ہوئی اور یہ کہا گیا کہ سب سے پہلے تو چیف جسٹس آف پاکستان کو یہ ملاقات کرنی ہی نہیں چاہے تھی اور اگر مجبوراً یہ ملاقات ضروری بھی تھی تو ایوان وزیراعظم کی بجائے یہ ملاقات ایوان عدل میں ہونی چائیے تھی ۔جب تنقید بڑھی تو قاضی وقت کی طرف سے یہ بیان آیا کہ چیف جسٹس آف پاکستان آج چیف ایگزیکٹو سے ملے ہیں اور کچھ دن بعد حزب اختلاف سے ملے گے ۔قاضی وقت سے دست بدستہ گزارش ہے کہ چیف جسٹس آف پاکستان کا کام حکومت یا اپوزیشن سے ملاقاتیں کرنا نہیں بلکہ انصاف کی فراہمی ہے ۔ججز کے فیصلے بولتے ہیں نا کہ ججز ۔ہمارے ہاں جہاں باقی شبعہ جات میں تنزلی آئی ہے وہاں اس ادارے کو بھی زوال کا سامنا ہے ۔چلیں مان لیا کہ ریاست کے تین اہم ستون ہیں یعنی عدلیہ ٫انتظامیہ اور مقننہ اور یہ ملاقات دو اہم ترین ستونوں کے نمائندوں یعنی چیف جسٹس اور وزیراعظم کے درمیان ہورہی تھی ۔ یقیناً ملک کو درپیش مسائل بھی زیر بحث لائے گئے ہونگے اور ان مسائل پر کس طرح قابو پایا جا سکتا ہے ان تدابیر پر بھی غور کیا گیا ہوگا۔مگر ملاقات کی “ٹائمنگ” اور جگہ درست نہیں ۔اگر قاضی وقت کو ملاقات کرنا تھی تو پھر ایوان عدل میں چیف ایگزیکٹو کو بلایا جاتا اور پھر معاملات کو زیر بحث لایا جاتا مگر حیرت ہے کہ چیف جسٹس خود چل کر ایوان وزیراعظم تشریف لے گئے جو اگر اعلیٰ عدلیہ کے لئے باعث شرم نہیں تو وجہ افتحار بھی نہیں ہے ۔خاص کر ایسے وقت میں جب ہائی کورٹس اور سپریم کورٹ میں نئے ججز لگائے جارہے ہیں چاروں صوبوں کی وکلاء تنظیمیں احتجاج کر رہی ہیں اور ججز کی تعیناتی کے عمل کو آئین پر شب خون مارنے کے مترادف قرار دے رہیں ہیں تو ایسی ملاقات کرتے ہوئے احتیاط لازم تھی ۔اگر اپوزیشن سے ملاقات کرکے حکومتی ملاقات کو جسٹیفائی کرنا مقصود ہے تو یہ عمل بھی غلط ہے چیف جسٹس کا کام ملاقاتیں کرنا یا اپوزیشن اور حکومت کے درمیان پیچ اپ( مصالحت)کروانا نہیں بلکہ فوری انصاف کی فراہمی ہے ۔اگر چیف صاحب بہتری چاہتے ہیں تو اپوزیشن سمیت عوامی مفادات کے حوالے سے دائر پٹیشنز کو سماعت کے لئے مقرر کریں اور متاثرین کو فوری انصاف فراہم کریں ۔ہمارے ہاں بدقسمتی یہ ہے کہ ہماری جو ذمہ داری ہوتی ہے اسے پورا کرنے کے علاؤہ سارے کام کرتے ہیں اور یہ صرف چیف جسٹس کی بات نہیں ہے بلکہ یہ ہمارے معاشرے کا المیہ ہے کہ ہم اپنی مقررہ کردہ ذمہ داریوں کو ادا کرنے کی بجائے دیگر معاملات میں ٹانگ اڑاتے ہیں جس کا نہ ہمیں تجربہ ہوتا ہے اور نا فہم ٫اسی وجہ سے ہمارے معاملات سلجھنے کی بجائے الجھتے جاتے ہیں ۔
پروفیسر قیصر عباس! Column in urdu

چیمپئن ٹرافی 2025، کوہلی کی سنچری ، بھارت نے پاکستان کو چیمپئن ٹرافی 2025 سے باہر ہونے کے دہانے پر دھکیل دیا۔

مرحوم خواجہ علی کاظم کون تھا ؟, اتنی مختصر زندگی میں اتنی شہرت کیسے حاصل کی، طہ علی تابش بلتستانی

50% LikesVS
50% Dislikes

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں