وکلاء، اساتذہ اور صحافی! پروفیسر قیصر عباس
گزشتہ روز دارالحکومت اسلام آباد میں وکلاء کا احتجاج ہوا۔احتجاج بنیادی طور پر چھبیسویں آئینی ترمیم ٫ سپریم کورٹ اور اسلام آباد ہائی کورٹ میں نئے ججز کی تعیناتی کے حوالے سے تھا ۔چھبیسویں آئینی ترمیم کے حوالے سے وکلاء تنظیموں خصوصاً سنئیر وکلاء اور پی ٹی آئی سمیت حزب اختلاف میں بیٹھی ساری جماعتوں کو تحفظات ہیں۔وکلاء کا موقف ہے کہ اس ترمیم کے زریعے عدلیہ میں مداخلت کی گئی ہے اور اپنے پسندیدہ ججز کو نوازا جا رہا ہے خصوصی طور پر اس ترمیم کے زریعے جسٹس منصور علی شاہ جو سنیارٹی میں سب سے اوپر تھے ٫ کا راستہ روکا گیا اور ان کی جگہ جسٹس یحییٰ آفریدی کو چیف جسٹس بنوا دیا گیا اس کے بعد آئینی بنچ کی تشکیل کی گئی اور جسٹس آمین الدین خان اس بنچ کے سربراہ بنائے گئے اس عمل کو بھی سنئیر قانون عدلیہ پر“ شب خون” مارنے کے مترادف سمجھ رہے ہیں ۔کیونکہ اگر آئینی بنچ کے اختیارات کی بات کی جائے تو عدلیہ میں ایک دہرا نظام متعارف کروا دیا گیا ہے ایک عدالت وہ ہے جس کے سربراہ چیف جسٹس آف پاکستان ہیں مگر وہ کسی بھی آئینی مقدمے کی سماعت نہیں کر سکتے جب دوسری طرف آئینی بنچ ہے جو کہ چیف جسٹس آف پاکستان سے بھی زیادہ طاقتور ہے ۔اس کی سادہ سی تشریح یہ ہے کہ عملاً چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس یحییٰ آفریدی ہی ہیں مگر اختیارات آئینی بنچ کے سربراہ کے پاس ہیں۔عدلیہ میں ایک خانہ جنگی کا آغاز ہو چکا ہے اور یہ خانہ جنگی پہلی دفعہ دیکھنے کو نہیں مل رہی ایسا جسٹس سجاد علی شاہ کے ساتھ بھی ہوا تھا جب ان کو چیف جسٹس آف پاکستان بے نظیر بھٹو کی سفارشات پر بنایا گیا تھا کہ چلیں شاہ جی کا تعلق سندھ سے ہے اور وہ حکومت وقت کے لئے کوئی مسلہ کھڑا نہیں کرے گے لیکن جب شاہ صاحب چیف جسٹس آف پاکستان بن گئے تو انہوں نے بی بی کی حکومت کے خلاف فیصلے دئیے ۔سجاد علی شاہ کے خلاف جسٹس صدیقی اور دیگر ججز نے ایک اتحاد بنا لیا جس کی وجہ سے سید سجاد علی شاہ جو استعفٰی دینا پڑا اور تب ہی ایک اصول طے پایا کہ چیف جسٹس آف پاکستان وہی جج بنے گا جو سنئیر ترین ہو گا۔لیکن موجودہ حکومت نے اس اصول کو ختم کرکے ایک نیا طریقہ کار اپنایا ہے جس کی وجہ سے عدلیہ میں ایک خانہ جنگی کی فضا بن گئی ہے ۔اس سے پہلےسابق صدر اور آرمی چیف جنرل پرویز مشرف کے خلاف بھی وکلاء تحریک چلی جب مشرف صاحب نے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کو کور کمانڈر ہاؤس بلایا اور ان سے استعفیٰ کا مطالبہ کیا مگر چیف جسٹس آف پاکستان افتخار محمد چوہدری نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا تب ان کے خلاف ریفرنس جوڈیشل کونسل میں بھیج دیا گیا اور ان کو برطرف کر دیا گیا۔بعد میں جسٹس بھگوان داس چیف جسٹس بنے اور خلیل الرحمٰن رمدے کی سربراہی میں بننے والے بنچ نے افتحار محمد چوہدری کو بحال کر دیا ۔کچھ عرصہ بعد پرویز مشرف نے نومبر میں ایمرجنسی نافذ کرکے ایک دفعہ پھر افتحار محمد چوہدری کو گھر بھیج دیا اور عبد الحمید ڈوگر کو چیف جسٹس بنا دیا۔ جن کے نام سے “ڈوگر کورٹس” مشہور ہو گئیں.آصف علی زرداری صدر مملکت بنے تو انہوں نے افتخار چودھری کو بحال کرنے کی بجائے آنہیں اپنی سیاسی بنانے کا مشورہ دیا اور ساتھ یہ پشین گوئی بھی کہ کہ چوہدری صاحب عدالت میں سیاست ضرور کریں گے ۔جب افتحار چوہدری مسلم لیگ نون کے لانگ مارچ جس کی قیادت میاں نواز شریف اور چوہدری اعتزاز احسن کررہے تھے ٫نے لاہور سے سفر شروع کیا تو گوجرانولہ پہنچنے تک افتحار چوہدری بحال ہو چکے تھے مگر اس کے بعد زرداری صاحب کی پشین گوئی درست ثابت ہوئی افتخار چوہدری نے نہ صرف “سوموٹو” اختیار کا بے دریغ استعمال کیا بلکہ “جوڈیشل ایکٹوزم” کی ایک نئی مثال قائم کی جس کی تقلید بعد میں ان کے جانشین جسٹس ثاقب نثار نے بھی کی ۔افتحار چوہدری کے دور میں ان کے بیٹے ارسلان کے بارے کہا جاتا تھا کہ اگر آپ اپنا مقدمہ اپنے پسندیدہ بنچ کے سامنے لگوانا چاہتے ہیں تو ارسلان افتخار سے رابطہ کر لیں ۔جس کا بعد میں اعتزاز احسن اور علی احمد کرد نے بھی اعتراف کیا ۔اب شنید ہے کہ وکلاء تنظیمیں چاہ رہی ہیں کہ موجود تحریک کو جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس منیب اختر لیڈ کریں اور مختلف بار کونسلز سے خطاب فرمائیں لیکن یہاں ایک بڑا سوال یہ ہے کہ تب تو نواز شریف افتحار چوہدری کی بحالی چاہتے تھے اور وہ “فنانشیلی سپورٹ” بھی فراہم کرتے رہے تھے لیکن ایک قوت کو ہم فراموش کر رہے ہیں جس نے اس تحریک کو جلا بخشی وہ قوت تھی” محمکہ زراعت “اس وقت کے مستقبل کے چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی بھی جنرل مشرف سے جان چھڑانا چاہتے تھے اس لئے انہوں نے مشرف مخالف قوتوں کا بھر پور ساتھ دیا ۔اس تحریک کو ایسی کوئی بھی حمایت فلحال میسر نہیں ہے ۔اس لئے اس تحریک کی کامیابی کے امکانات کم لگتے ہیں تحریک انصاف اس تحریک کی حامی ہے مگر ابھی تک عمران خان کا ستارہ گردش میں ہے اس لئے تحریک انصاف کوئی اتنا اہم کردار ادا کرنے سے قاصر ہے ۔اساٹذہ نے بھی وکلاء کے ساتھ احتجاج کیا خاص کر سرکاری ملازمین کی تنظیموں کے مجموعے “آگیگا” نے ۔مگر یہاں دلچسپ صورتحال یہ ہے کہ مرکزی حکومت نے رانا ثناءاللہ کی قیادت میں ایک کمیٹی تشکیل دے دی ہے جو کہ” آگیگا “کے نمائندوں سے مزاکرات کرے گی مطلب اگر وہ مطالبات مان لئے جاتے ہیں تو سرکاری ملازمین گھروں کو روانہ ہو جائیں گے ۔کیونکہ سرکاری ملازمین اپنی تنخواہوں اور پنشنز کو لے مضطرب ہیں اور انہیں سرکار سے بس یہی چاہے گورنمنٹ کس کی ہے ؟اس بات سے انہیں کوئی سروکار نہیں ہے ۔صحافیوں کی تنظیمیں” پیکا قانون” کو لے کر پریشان ہیں اور اگر صحافیوں کے معاملات بھی خوش اسلوبی سے حل ہو جاتے ہیں تو پھر احتجاج میں صرف وکلاء ہی بچیں گے اور وہ وکلاء بھی تقسیم ہیں کیونکہ پر جماعت نے اپنے” لائرز فورم” بنائے ہوئے ہیں اور ان کی اپنی اپنی جماعت سے وابستگی ہے۔مثال کے طور احسن بھون پیپلز پارٹی کی نمائندگی کرتے ہیں جب کہ وفاقی وزیر قانون اعظم نزیز تارڑ مسلم لیگ نون سے وابستہ ہیں اس واضح تقسیم سے وکلاء تحریک کی کامیابی مشکوک نظر آرہی ہے۔
column in urdu,
شگر، وزیر اعظم پاکستان کا ہیپاٹائٹس سی سے بچاؤ اور خاتمے کی مہم کو شگر سے شروع ہونا اچھا پروگرام ہے، ڈپٹی کمشنر شگر ولی اللہ فلاحی
لاہور یوم آزادی شگر کے حوالے سے لاہور بار ایسوسی ایشن میں تقریب