9 منٹ ! پروفیسر قیصر عباس

9 منٹ ! پروفیسر قیصر عباس
انگریز فلاسفر اور ماہر قانون جان آسٹن قانون کی تعریف کرتے ہوئے کہتا ہے کہ “بادشاہ کے منہ سے نکلے ہوئے الفاظ قانون ہیں۔”ایک دور میں جب برطانیہ میں حقوق کی بات چل رہی تھی تو برطانوی معاشرہ دو حصوں میں منقسم تھا کچھ لوگ بادشاہت کے ہامی تھے اور کچھ نئے نظام “جمہوریت” کے دلدادہ تھے ۔تھوڑا وقت گزرا تو یہ تقسیم فلاسفرز اور قانون دانوں کے درمیان بھی نظر آنے لگی جس کی واضح مثال جان لاک اور تھامس ہابز ہیں دونوں کے نظریہ” قدرتی زمانہ ” میں بھی یہ بات نظر آتی ہے کہ جان لاک چونکہ جمہوریت کا حامی تھا اس لئے اس نے قدرتی زمانہ کا جو نظریہ پیش کیا اس میں اس نے بادشاہ کو عوام کے سامنے جوابدہ قرار دیا ہے جس کو وہ “معاہدہ عمرانی” (Social Contract )کانام دیتا ہے جب کہ اس نظریہ میں تھامس ہابز بادشاہ کو عوام کے سامنے جواب دہی سے ماوراء قرار دیتا ہے اور اسے زمین پر خدا کا نائب گردانتا ہے تھامس ہابز کے مطابق یہ “عوام ہیں جو بادشاہ کے ہر حکم کے پابند ہیں اور بادشاہ پر ایسی کوئی پابندی نہیں ہے “۔قوانین کی تشکیل بھی بادشاہ کا اختیار تھا اور بادشاہ کی ذات میں انتظامیہ ٫عدلیہ اور مقننہ کے اختیارات مرکوز تھے۔دوسرے لفظوں میں کہا جاسکتا ہے کہ بادشاہ تینوں اداروں کا مرکز و محور تھا ۔لیکن وقت تبدیل ہوا بادشاہ کے اختیارات پارلیمنٹ کو تفویض ہوئے ۔طاقت کا مرکز تبدیل ہوا تینوں شعبہ جات علحیدہ ہوئے اور قانون سازی کا اختیار مقننہ کے پاس آگیاجب کہ قوانین کی تشریح کا اختیار عدلیہ کے پاس گیا ۔انتظامیہ بنائے گئے قوانین پر عمل درآمد کرواتی ہے ۔دنیا میں قانون سازی کے اس وقت دو ماڈل زیادہ مقبول ہیں جس طرح دنیا میں دو طرز ہائے حکومت معروف ہیں جسے ہم سادہ الفاظ میں پارلیمانی اور صدارتی نظام کہتے ہیں پوری دنیامیں جہاں پارلیمانی نظام حکومت ہے وہ برطانیہ کی نقل ہے جب کہ صدارتی نظام امریکی نظام سے اخذ کیا گیا ہے ۔پارلیمانی نظام میں اختیارات کا مالک وزیر اعظم اور اس کی کابینہ ہوتی ہے جب کہ صدارتی نظام میں اختیارات کا مالک فرد واحد صدر ہوتا ہے اور کابینہ کی حیثیت محض مشاورتی ہوتی ہے ۔لیکن دونوں نظام حکومت میں قانون سازی کا اختیار پارلیمنٹ کے پاس ہی ہے ۔برطانیہ میں جب قانون سازی ہوتی ہے تو سب سے پہلے بل کی ڈرافٹنگ ہوتی ہے اس کے بعد محرک اسپیکر کی اجازت سے بل پارلیمنٹ میں پیش کرتا ہے اسے پہلی خواندگی( First Reading)کہتے ہیں ۔ اسپیکر اس بل پر بحث کے لئے تاریخ کا اعلان کر دیتا ہے ۔مقررہ تاریخ کو ارکان پارلیمنٹ اس بل پر بحث ومباحثہ کرتے ہیں اسے “دوسری خواندگی”(Second Reading)کہتے ہیں ۔محرک اپنے بل کے حق میں دلائل دیتا ہے اس بل کے حامی اراکین بل کی حمایت میں لمبی لمبی تقریریں کرتے ہیں جب کہ مخالف اراکین اس بل پر تنقید کرکے اس کے نقصانات اجاگر کرتے ہیں ۔اس کے بعد یہ بل متعلقہ کمیٹی میں چلا جاتا ہے اور یہ کمیٹی سنئیر اور ماہر ارکان پارلیمنٹ پر مشتمل ہوتی ہے جو اس بل پر مزید بحث ومباحثہ کرتے ہیں اور اپنی سفارشات کے ساتھ بل کو واپس اسپیکر کے پاس بھیج دیتے ہیں ایک ایوان سے منظوری کے بعد بل دوسرے ایوان میں پہنچتا ہے جس پر مزید بحث ومباحثہ ہوتا ہے جب یہ سارے مراحل طے ہو جاتے ہیں تو اس بل کو بادشاہ اپنے دستخطوں کے ساتھ ایکٹ یا قانون کا درجہ دے دیتا ہے ۔امریکہ میں بھی تھوڑے ردوبدل کے ساتھ تقریباً یہی طریقہ کار رائج ہے ۔برطانیہ میں کوئی بھی بل دوسری خواندگی (Second Reading) کے بعد کمیٹی کو بھیجا جاتا ہے جب کہ امریکہ میں” پہلی خواندگی”(First Reading)کے بعد بل کمیٹی کے پاس بیھج دیا جاتا ہے دوسرا اہم فرق یہ ہے کہ برطانوی کمیٹیاں اتنی بااختیار نہیں ہوتیں اور معمولی ردوبدل بدل کے بعد بل کو واپس ایوان میں بھیجنے کی پاپند ہیں دوسری طرف امریکی نظام میں کمیٹی سسٹم اتنا بااختیار ہے کہ کمیٹی کسی بھی بل کی ہیت کو مکمل طور پر تبدیل کر سکتی ہے اور پارلیمان کو رپورٹ دینے کی پابند بھی نہیں ہوتی یہاں تک امریکہ میں کمیٹیاں اکثر بلوں کو ردی کی ٹوکری میں پھینک دیتی ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ ان مذکورہ دونوں ممالک میں قانون سازی کا معیار بہت بہتر ہے ۔اس سارے پس منظر کو بیان کرنے کا مقصد صرف ایک خبر تھی جس نے میرے سمیت کئی سیاسیات اور قانون کے طالب علموں کو چونکا کے رکھ دیا اور میرے سمیت بہت سے ایسے لوگ جو سیاست ٫ پارلمینٹ اور قانون کی تھوڑی بہت سمجھ رکھتے ہیں ٫نےبسر پکڑ لئے ہونگے وہ خبر کچھ یوں ہے کہ ہماری پارلیمنٹ جسے تیسرے فوجی آمر نے “مجلس شوریٰ” کا نام دیا تھا اور جس کی پیشانی پر کلمہ طیبہ لکھا ہوا ہے میرے ذاتی خیال میں یہ جگہ اسلامی نقطہ نظر میں مسجد کی سی اہمیت رکھتی ہے ٫میں بیٹھ کر صرف 9 منٹ میں پارلیمنٹ کے ایک مشترکہ اجلاس میں ارکان پارلیمنٹ نے ” چار عدد بل” منظور کر لئے ہیں یعنی اس 24 کروڑ کی عوام کو جن کے کروڑوں روپے اس پارلیمنٹ میں بیٹھے ہوئے ارکان پارلیمنٹ پر خرچ ہو رہے ہیں انہوں نے صرف 9منٹ میں چار عدد بل پاس کر دئیے ہیں جو ابھی تک قانون بھی بن چکے ہونگے ۔عجلت میں بنائے گئے قوانین کا معیار کیا ہو گا یہ کوئی اتنی بڑی سائنس نہیں جسے کوئی سمجھ نہ سکے ؟امریکہ میں 1789ءمیں آئین کی تشکیل ہوئی اور اتنا عرصہ گزرنے بعد وہاں ابھی تک 27 آئینی ترامیم ہوئی ہیں مگر ہم نے 1947 ء کی آزادی کے بعد تین دساتیر رائج کیے۔ پہلا دستور صرف اڑھائی سال چل سکا ۔دوسرا آئین ایک فوجی آمر کی خواہشات کو مدنظر رکھ کر بنایا گیا آمر کی رخصتی کے ساتھ ہی اس کے بنائے گئے آئین کو بھی الوداع کہہ دیا گیا ۔تیسرا آئین ایک دستور ساز اسمبلی نے بنایا جو کہ 1970ء کے انتخابات کے بعد آدھا ملک گنوا کر بنی تھی۔1973ء کے آئین میں اب تک چھبیس آئینی ترامیم ہو چکیں ہیں ۔1973ء کا آئین بنیادی طور پر پارلیمانی آئین ہے مگر آمروں نے اپنی خواہشات کو دوام بخشنے کے لئے اسے موم کی ناک بنا کر رکھ دیا اور حسب ضرورت اسے صدارتی آئین میں تبدیل کر دیا۔مگر جمہوری لیڈروں نے بھی اس آئین کے ساتھ کچھ اچھا سلوک نہیں کیا بلکہ اپنے مخالفین کا راستہ روکنے کے لئے اس میں نت نئی مضحکہ خیز ترامیم کیں ایک موصوف نے تو باقاعدہ “خلافت” قائم کرکے “امیر المومنین”بننے کی بھی کوشش کی ۔9 منٹ میں چار بلوں کی منظوری کسی “صاحب دستار وشمشیر “کی خواہشات کی عکاس ہے ورنہ قانون سازی تو عوامی مسائل کو مدنظر رکھ کر کی جاتی ہے لیکن حالیہ قانون سازی سے عوامی مفاد کی بو تک نہیں آرہی ۔ Column in Urdu
پروفیسر قیصر عباس!

100% LikesVS
0% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں