خود کش حملہ ! پروفیسر قیصر عباس
خود کش حملہ ! پروفیسر قیصر عباس
چند روزقبل بانی پی ٹی آئی کی بیگم بشریٰ بی بی کا ایک بیان الیکٹرانک میڈیا اور پرنٹ میڈیا کی زینت بنا ۔ جس میں ان کا موقف تھا کہ جب عمران خان اور وہ عمرہ کی نیت سے سعودی عرب گئے اور عمران خان ننگے پاؤں روضہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر حاضری دی تو اس کے بعد سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نے اس وقت کے آرمی چیف جنرل باجوہ کو فون کر کے کہا کہ “ہم تو اپنے ملک میں شریعت ختم کر رہے ہیں اور تم کسے اٹھا لائے ہو جو شریعت کے ٹھیکدار بنا ہوا ہے ۔”جب کہ دوسری طرف جنرل باجوہ نے اس بیان کی تردید کی ہے اور یہ بھی کہا ہے کہ سعودی عرب ہمارا نہ صرف اسلامی برادر ملک ہے بلکہ ہمارا محسن بھی ہے ۔اگرچہ بانی پی ٹی آئی نے بشریٰ بی بی کے اس بیان کو توڑ مڑوڑ کر پیش کرنے کی بات کی ہے اور پی ٹی آئی کی اعلیٰ قیادت سمیت عام ورکر بھی تذبذب کا شکار ہے ۔ایک دم اس بیان کے بعد پی ٹی آئی دفاعی پوزیشن پر آگئی ہے ۔اس بیان کے بعد پی ٹی آئی کی طرف سے مختلف توجیہات بیان کی جارہی ہیں اور ڈمیج کنٹرول کرنے کی کوشش کی جارہی ہے جس طرح کمان سے نکلا ہوا تیر اور زبان سے ادا کئے گئے جملے واپس نہیں آتے بالکل اسی طرح بشریٰ بی بی کے بیان کے ڈمیج کنٹرول کی ناکام کوششیں کی جارہی ہیں اور اس بیان کے آفٹر شاکس محسوس کئے جارہے ہیں۔سوال یہ ہے کہ جس وقت پی ٹی آئی اپنی بقا کی جنگ لڑ رہی ہے اس وقت اس طرح کا بیان جاری کرنے کا کیا مقصد ہے ؟کچھ تجزیہ نگاروں کے مطابق 24 نومبر کے احتجاج جس کو اڈیالہ جیل میں بیٹھے ہوئے خان صاحب نے “فائنل کال” کا نام دیا ہے اسے “اسلامی ٹچ ” دینے کے لئے اس بات کا حوالہ دیا گیا ہے کہ جہاں ساری دنیا میں شریعت ختم ہورہی ہے وہاں شریعت کا چاہنے والا جیل میں بند ہے ۔اسے اڈیالہ سے نکالا جائے تاکہ ملک میں شریعت نافذ ہو سکے ۔اگر بشریٰ بی بی نے اسی بات کو سامنے رکھ کر عمران خان کی رہائی کی کوشش کی ہے تو یہ ایک “بھونڈی کوشش” ہے۔ اس کی دوسری وجہ شاید یہ بھی ہو سکتی ہے کہ بشریٰ بی بی اس وقت شدید مایوسی کی حالت میں یہ بلنڈر کر بیٹھی ہیں ۔پی ٹی آئی والے دوستوں کا یہ بھی موقف ہے کہ بشریٰ بی بی گھریلو خاتون ہیں اور ان کا سیاست یا پی ٹی آئی سے کوئی تعلق نہیں ہے جس کی وجہ سے ان کے بیان کی کوئی خاص اہمیت نہیں ہے ۔اس سب کے باوجود یہ بات بالکل عیاں ہے کہ بشریٰ بی بی خارجہ پالیسی اور دیگر ممالک سے تعلقات کے حوالے سے بالکل نابلد ہیں ۔کیونکہ ریاستوں کے تعلقات ریاستوں سے ہوتے ہیں نا کہ شخصیات سے چونکہ بشریٰ بی بی سابق خاتون اول رہ چکی ہیں اس لئے ان کے بیان کو یکسر نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ۔پی ٹی آئی کے حوالے سے پہلے بھی ایک تاثر یہ موجود رہا ہے کہ عمران خان کی حکومت کا جھکاؤ سعودی عرب مخالف کیمپ جس کی قیادت ترکی کے صدر طیب اردگان کر رہے تھے٫ کی جانب رہا ہے بلکہ ملائشیا میں OIC کے سربراہی اجلاس کا انعقاد بھی عمران کی تجویز پر ہی کیا گیا تھا لیکن سعودی عرب کے تحفظات کی وجہ سے عمران خان نے مہاتیر محمد کے منعقد کردہ اجلاس میں خود شرکت نہیں کی تھی بلکہ اس وقت کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے شرکت کی تھی ۔عمران خان نے ایک وقت میں محمد بن سلمان کو سعودی عرب میں پاکستان کا سفیر بھی کہا تھا لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ پی ٹی آئی دور میں پاک سعودی عرب تعلقات میں وہ گرم جوشی نہیں تھی جو اس سے پہلے ادوار میں تھی اس کی وجہ شاید یہ تھی کہ خان صاحب ایران اور سعودی عرب تعلقات میں ایک توازن برقرار رکھنا چاہتے تھے لیکن ایسا ممکن نہ ہو سکا کیونکہ ایران پر بین الاقوامی سطح پر معاشی پابندیاں تھی جس کی وجہ سے باظاہر ہم ایران سے کوئی معاشی مفاد حاصل نہیں کر سکتے تھے ۔پٹرولیم مصنوعات کی خریداری کے لئے ہمیں پھر سے سعودی عرب کی طرف ہی جانا پڑنا تھا ۔اس لئے عمران خان اس حوالے سے مغالطے کا شکار تھے ۔امریکہ میں چونکہ ٹرمپ برسر اقتدار آنے والے ہیں اور شہزادہ محمد بن سلمان کے ٹرمپ کے ساتھ دیرینہ تعلقات ہیں ۔پی ٹی آئی کے احباب اس حوالے سے امید لگائے بیٹھے تھے کہ ٹرمپ صاحب جب آئندہ برس 20 جنوری کو صدر امریکہ کا حلف اٹھائیں گے تو سب سے پہلے وہ پاکستانی انتظامیہ کو کال کریں گے اور عمران خان کی رہائی کا مطالبہ کریں گے اگر بالفرض ایسا ہی ہے تو بشریٰ بی بی کا سعودی عرب کے حوالے سے یہ بیان نہ صرف پی ٹی آئی بلکہ عمران خان پر بھی خودکش حملہ ہے ۔
پروفیسر قیصر عباس
column in urdu
پاکستان تحریک انصاف کے جنرل سیکرٹری کے استعفی کااصل وجہ سامنے آ گئی، بشرا بیگم کے ساتھ تلخ کلامی
پاکستان اسٹاک ایکسچینج نے نیا سنگ میل عبور کیا، 100 انڈیکس ایک لاکھ کی سطح پر پہنچ گیا